• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فضا میں پھیلی ہوئی بدزبانی اور الزام تراشی کی بُویاس میں نجانے کیوں میرا دل نذیر قیصر کے اِس شعر سے کالم کا آغاز کرنے پر آمادہ کر رہا ہے کہ شاید چپکے سے روح میں تازگی آ جائے ؎

رنگ و خوشبو میں ہے، صبا میں ہے

وہ میری صبح کی دعا میں ہے

’صبح کی دعا‘ کے الفاظ کے جلو میں لطافتوں کی ایک حسین کائنات اُمنڈتی چلی آئی اور مجھے بےاختیار اثرؔ صبہائی یاد آئے جن کے ساتھ میں نے سالہا سال سمن آباد کے چمن زار میں شام کی سیر کی تھی ؎

اِس حُسنِ پاکباز کی آتی ہے اب بھی یاد

نورِ سحر کے ساتھ، کبھی چاندنی کے ساتھ

ایک دوست نے مجھے اپنا بھولا ہوا شعر یاد دِلایا، تو میں حالات کی ترشی اور بےکیفی سے آزاد ہوتا گیا ؎

نور سے بھی لطیف اک پیکر

ربط باہم ہے اور ہم تنہا

رئیس المتغزلین حسرت موہانی نے ہماری آج کل کی بےتابیوں کی تصویر کھینچ دی ہے ؎

حُسن بےپروا کو خودبین و خود آرا کر دیا

کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا

ہم اِن دنوں اظہارِ تمنا کے عجب عجب جلووں میں گھِرے ہوئے بلکہ دم سادھے ہوئے ہیں۔ اظہارِ تمنا کے بعد ’حُسنِ بےپروا‘ نے معبودیت کا مقام حاصل کر لیا ہے اور اس کے پجاری چھوٹے بڑے فرعونوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ مرزا غالبؔ نے اُن کے بارے میں تمثیلی انداز میں کہا تھا ؎

ہوا ہے ’شہ کا مصاحب‘ پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

ان مصاحبین نے لغت ہی بدل ڈالی ہے اور خرد کا نام جنوں رکھ دیا ہے۔ بےخبری اور نارسائی کو وژن سے تعبیر کیا ہے۔ پانچ ماہ کی مچائی ہوئی کھلبلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ قیادت بصیرت سے بھی محروم ہے اور ایک بالغ نظر اور فرض شناس ٹیم سے بھی۔ وہ اہلِ دانش جو تحریکِ انصاف کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر لائے تھے، وہ چیخ اُٹھے ہیں کہ معیشت کی زبوں حالی سے قومی سلامتی کے لیے سنگین چیلنج پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کے اوسان خطا کر دیے ہیں کیونکہ کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر طرف عمارتیں گرائی اور دکانیں توڑی جا رہی ہیں۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور ڈالر قابو میں نہیں آ رہا ہے۔ افراطِ زر دو ہندسوں تک جا پہنچا ہے اور ترقیاتی اخراجات میں کمی واقع ہو جانے سے روزگار کے مواقع حددرجہ محدود ہو گئے ہیں۔ ٹیم کے کپتان حالات سنوارنے کی جس قدر کوشش کر رہے ہیں، وہ اسی قدر اُلجھتے جا رہے ہیں۔ دوست ممالک ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے مالی امداد فراہم کر رہے ہیں، مگر وہ اربابِ حکومت کی بےعقلی اور ناتجربہ کاری کے باعث نئے نئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ سیاسی استحکام جو معاشی اور سماجی استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، وہ شدید افراتفری کا شکار ہے اور صوبے مرکز کے مدِمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ وفاق کے صوبے فتح کرنے کے جنون نے قومی سلامتی اور وحدت میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔

ہر لحظہ خطرات میں ڈھلتی ہوئی صورتِ حال کے ہم سب کسی نہ کسی طور پر ذمہ دار ہیں، اِس لیے اس کی اصلاح کے لیے معاشرے کے تمام طبقوں اور ریاست کے تمام اداروں کو تن دہی اور ذمہ داری سے مثبت کردار اَدا کرنا ہو گا۔ کرشماتی شخصیات کے ہم کارنامے بھی دیکھ چکے اور ان کی فاش غلطیوں کا خمیازہ بھی اُٹھا چکے، اب کرشماتی سیاست کو اپنانے اور فروغ دینے ہی سے حالات میں توازن پیدا ہو گا۔ طلسماتی ریاست کے دو بنیادی اجزا ہیں:ایک سیاست دانوں کا باہمی احترام اَور دوسرا حکومت میں پارلیمان کی مرکزی حیثیت۔ ماضی میں یہی دونوں اصول پامال ہوتے رہے جس کے باعث قومی زندگی میں ہولناک فساد پیدا ہوتا رہا۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کے اندر بےاعتمادی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف نے جناب آصف زرداری کے بارے میں بلاوجہ تضحیک آمیز لہجہ اور زبان اختیار کی جس کے سبب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ انہی اختلافات کی بنیاد پر پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت ختم کی اور اِسے سینیٹ کی چیئرمین شپ سے محروم رکھا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد یہ دونوں جماعتیں وفاق میں حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں تھیں، مگر دشمنی کی حد تک اختلافات کے باعث اُنہوں نے ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا جس سے غیرجمہوری طاقتوں کو مداخلت کرنے کا حوصلہ ہوا۔ قوم کے قیمتی پانچ ماہ ناقابلِ تصور افراتفری میں گزرے ہیں اور اب تحریکِ انصاف کی عاقبت نااندیشی اور مسلسل اشتعال انگیزی نے اُنہیں ایک ساتھ بیٹھنے اور مشترکہ حکمت ِ عملی بھی وضع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ جناب انصار عباسی بزبانِ طیور خوشخبری لائے ہیں کہ جناب عمران خان نے اپنے ترجمانوں، وزیروں اور مشیروں کو اپوزیشن اور میڈیا سے شائستہ زبان میں گفتگو کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل میں سیاسی عناصر اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اظہارِ خیال کریں گے اور ایک دوسرے کے احترام کا خاص خیال رکھیں گے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست اور معیشت میں استحکام پارلیمان کو مرکزی حیثیت دینے ہی سے آئے گا۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ماضی میں وزیرِاعظم نوازشریف اور عمران خان نے پارلیمان کی بےوقاری میں اضافہ کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ فیصلے اور پالیسیاں پارلیمان میں طے ہونی چاہئیں اور ارکانِ پارلیمان کو ایوان کی کارگزاری میں پوری تیاری کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ اِس امر کی پوری سرتوڑ کوشش کی جائے کہ سیاست دانوں پر یہ حرف نہ آنے پائے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود میں دلچسپی نہیں لیتے اور اُن کے اندر مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ اِس تاثر کو پارلیمانی کمیٹیوں کو مضبوط بنانے اور ان میں عرق ریزی سے کام کرنے ہی سے زائل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ متانت، سنجیدگی اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور عوام کے جائز مینڈیٹ کا ہر درجہ احترام کیا جائے۔ اپوزیشن اور حکومت کے تعاون سے پارلیمان اور قانون کی بالادستی قائم کی جا سکتی ہے جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ حالات متقاضی ہیں کہ ٹیم کے اندر اِس طرح ردوبدل کیا جائے کہ حکومت کے معاملات خوش اسلوبی سے سرانجام پانے لگیں اور ملکی اور غیرملکی سرمایہ داروں میں اعتماد پیدا ہو اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

تازہ ترین