• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سرفراز احمد کی معافی رائیگاں، سزا دیتے وقت انصاف کے تقاضے پورے ہوئے؟

اتوار کادن پاکستانی کپتان سرفراز احمدکے لئے جنوبی افریقی میدانوں میں داخلے میںرکاوٹ کا دن بنا ہے تو اسی تاریخ کو میزبان ٹیم کو تاریخ میں پہلی بار سالانہ پنک ون ڈے میچ میں شکست ہوئی ہے،دونوں واقعات یاد رکھے جائیں گے،سرفراز احمد 4 میچوں کے لئے نہ صرف کپتانی بلکہ کھیلنے سے بھی محروم قرار دیدیئے گئے،انٹر نیشنل کرکٹ کو نسل نے 5 سے 6 دن کے طویل ’’تحقیقاتی مشن‘‘ کے مکمل ہونے پر یہ فیصلہ سنایا جو انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے نہ صرف اس پر مایوسی کا اظہار کیا بلکہ اسے آئی سی سی پلیٹ فارم پر اٹھانے کا بھی اعلان کیا ہے، ڈربن کے دوسرے ون ڈے میں جنوبی افریقی بیٹنگ کے دوران پاکستانی کپتان نے اینڈائل فلکوایو کے بارے میں چند نامناسب جملے کہے تھے،سرفراز احمد کے ان جملوں میں ’’ابے کالے‘‘ کے 2 لفظ انکے لئے مصیبت بن گئے،جنوبی افریقا نسلی تعصب کے حوالے سے تازہ ترین تاریخ رکھتا ہے،اس لئے بلاشبہ یہ لفظ قابل گرفت بنتے ہیں،تاہم اس کے بعد پاکستانی کپتان نے سر عام معافی مانگی،بورڈ سے لیکرٹیم تک اور عوام سے لیکر فلکوایو کے آگے بھی جھک گئے،اسکے بعد آئی سی سی کی جانب سے 4 میچوں کی پابندی سخت نہیں بلکہ انتہائی سخت ترین سزا ہے، سرفراز نے معافی مانگ لی تھی،اس لئے انہیں کم سے کم سزا ملی،انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کو 2007میں آسٹریلیا ہی کے میدانوں میں اینڈریو سائمنڈز کو بھارتی کھلاڑی ہربھجن سنگھ کا بندر کہنا،اس پر پابندی لگانا،بھارت کا دورہ چھوڑنے کی دھمکی دینا اور پابندی اٹھالینا بھی یاد رکھنا چاہیے تھا،اسی طرح کئی ایسے واقعات ہیں جن میں ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے،آئی سی سی کی چیئر مین شپ طویل عرصے سے بھارت کے پاس ہے اب چیف ایگزیکٹو کی پوسٹ بھی اسے دیدی گئی ہے،ایسے میں اتنے حساس واقعات کو کور کرتے وقت انضاف کے تقاضے نظر انداز ہونگے تو پھر بڑی پوسٹوں پر موجود لوگوں اور پا ک بھارت کرکٹ تعلقات کی کشیدگی میں ایسے فیصلوں کو شک کی نگا ہ سے دیکھا جائے گا،ورلڈ کپ قریب ہے ،ایسے میں قومی کپتانپر پابندی ٹیم کو ہلانے کے مترادف بن سکتی ہے،نسل پرستی کی سزا کا ٹائٹل ساری زندگی سرفراز کے ساتھ رہے گا اور انہیں تمیز سیکھنے کی کلاسز بھی اٹینڈ کرنی پڑیں گی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کا رد عمل بلاشبہ درست ہے ،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے ہائی لیول پر ڈسکس کرکے اس میں ترمیم کی کوشش ہونی چاہئے،اس سے سرفراز کی سزا تو کم نہیں ہوگی مگر یہ تو ریلائز کرایا جاسکے گا کہ قانون کا بہتر استعمال کیسے ممکن ہے، میچوں کی پابندی اگرچہ آخری ٹی 20 سے قبل پوری ہوجائے گی مگر اخلاقی طور پر ان کا واپس آجانا ہی بہتر ہوگا۔شعیب ملک کی قیادت میں پاکستان نے جو ہانسبرگ کے گرائونڈ میں میزبان ٹیم کے خلاف ون ڈے میچ جیت لیا،یہ 3اعتبار سے اسلئے بھی اہم بن گیا کہ 4 میچوں کی سیریز 2-2 سے برابر ہوگئی،دوسرا اس اعتبار سے کہ جنوبی افریقا تاریخ کا یہ سالانہ پنک ون ڈے میچ تھا جس میں اسے پہلی شکست ہوئی ،اسکی آمدنی کینسر کے مریضوں کو دیجاتی ہے،پنک جرسی پہنے جنوبی افریقی کھلاڑی 2013 سے مسلسل جیتتے چلے آرہے تھے،پاکستان اور بھارت 2013 میں ہارے،2015 میں ویسٹ انڈیز،2016 میں انگلینڈ ،2017 میں سری لنکا اور 2018 میں بھارت کو شکست ہوئی،اس طرح جنوبی افریقا تاریخ کے 7 ویں میچ میں پہلی بار پنک جرسی والا ون ڈے ہارا ہے تو پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اس نوعیت میں پہلی کامیابی حاصل کر کے تاریخ میں اپنا ریکارڈ درج کردیا،اور تیسرا کارنامہ اسلئے بن گیا کہ جوہانسبرگ کے ونڈررز گرائونڈ میں میزبان ملک کے خلاف یہ پہلی فتح تھی۔چوتھے میچ میں ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی بولرز اپنے کپتان کی غیر حاضری کا غصہ پروٹیز بیٹسمنوں پر اتارنے میں تلے ہوئے تھے،عثمان شنواری کے تباہ کن ا سپیل کی 4 وکٹیں حریف بیٹنگ لائن کی کمر توڑنے کے لئے کافی تھیں،شاہین آفریدی نے پہلی 2 قیمتی وکٹیں حاصل کیں،رہی سہی کسر باقی بولرز نے پوری کرکے جنوبی افریقا کو 164 تک محدود کردیا،فخر زمان،امام الحق اور بابر اعظم نے بڑی آسانی سے قریب 19 اوورز قبل ہدف حاصل کرکے باوقار کامیابی کو گلے لگایا،دونوں ٹیموں کے مابین سیریز کا فیصلہ کن میچ 30 جنوری کو کیپ ٹائون کھیلا جائے گا،2013 کے شروع میں بھی 5 میچوں کی سیریز آخر تک گئی تھی اور پاکستان 2-3 سے ہارا تھا،مہمان ٹیم کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ ورلڈ کپ سے قبل پروٹیز میدانوں میں ایک روزہ سیریز جیتے،کیونکہ اسکے میدانوں میں کسی بھی نوعیت کی ٹرافی اٹھانا آسان نہیں ہوتا،کپتان شعیب ملک نے بہترین کپتانی کی ،بولرز کا اچھا استعما ل کیا ہے،فائنل میں بھی ٹیم جان مار کر کھیلے تو کامیابی قدم چومے گی،پاکستانی بیٹنگ لائن کے دھوکا دینے کا لیبل بڑا ہی پرانا ہے،اسے اتارنے میں وقت تو لگے گا،ورلڈ کپ تک تسلسل کے ساتھ فتوحات پاکستان کو فیورٹ ممالک میں لے آئے گی ،نیوز لینڈ گرائونڈ میں پاکستان 5 میں سے ایک میچ جنوبی افریقا کے خلاف جیت چکا ہے،جوہانسبرگ میں ایک فتح سے 3تاریخ رقم کرنے والی ٹیم یہاں فتح سے نا آشنا نہیں ہے،یہاں کے حوالے سے بیٹنگ لائن کے لئے تشویشناک اعدادوشمار یہ ہیں کہ پاکستان اس میدان میں 231 رنز سے زیادہ نہیں جوڑ سکا،کم سے کم 2007 میں 107 رنز تھے،24 نومبر 2013 کو بھی ٹیم 9 وکٹ پر 218 رنزکرسکی تھی،پروٹیز ٹیم 195 پر آئوٹ ہوکر 23 رنز سے ہاری،گویا اکلوتی فتح میں بھی ہا ئی اننگ 218 رہی،موجودہ حالات میں قدرے تیز پچ پر بیٹسمینوں سنبھل کر کھیلنا ہوگا،گرین شرٹس اور پروٹیز یکم فروری سے 3 ٹی 20 میچوں کی سیریز میں مدمقابل ہونگے،اس فارمیٹ کی عالمی نمبر ون ٹیم پاکستان کا جنوبی افریقی میدانوں میں ہوم ٹیم کے خلاف مقابلہ 2-2 میچوں برابر ہے،مجموعی باہمی مقابلوں میں جنوبی فریقا کو 5-6 سے معمولی سبقت حاصل ہے،باہمی سیریز میں 2013 میں ایک میچ کی ٹرافی پاکستان نے اٹھائی ہے اور ایک روزہ کرکٹ کی طرح جنوبی افریقا میں یہ پہلی اور آخری ٹرافی ہے۔جنوبی افریقا اپنے ملک میں ایک سیریز جیتا اور ایک برابر کھیلا،جبکہ عرب امارت میں دونوں سیریز اسکے نام رہیں،گویا اس معاملے میں بھی اسے سبقت حاصل ہے،پاکستان طویل عرصے سے ٹی20 چیلنج میں ناقابل شکست چلا آرہا ہے،دیکھنا ہوگا کہ کپتان کی تبدیلی سے ٹی20 نتائج پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین