• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ماں نے 5؍جنوری 1925ء کو اپنا ایک بیٹا پیدا کیا۔ گھرانہ تھا شاہنواز بھٹو کا، جس گھر میں پہلی بیوی اور اس کے دو بیٹوں کا حکم چلتا تھا۔ ماں لکھی بائی عرف خورشید کو محسوس ہوتا تھا کہ جس محبت سے خان آف قلات کے محل میں جاکر شاہنواز بھٹو نے دیوانگی کے عالم میں 16سال کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ خاندان میں کسی کو بھی ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہی رنجشوں کے درمیان وہ بچہ جب دس سال کی عمر کو پہنچا تو پڑھنے کے لئے سوتیلے بھائی سکندر کے پاس بھجوادیا گیا۔ اب وہ بمبئی اور پھر باہر تعلیم حاصل کرنے کو بھیج دیا گیا۔ تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ اس بچے کی ماں کیا بمبئی آگئی کہ کہیں اور جارہی، مگر والپورٹ ہوں کہ اوریانہ فلاچی، ان کو اپنی یادداشتیں جن میں ماں کی یادوں کے حوالے سے تلخیاں بہت تھیں، سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ یہ ذہین و فطین جوان سیاست میں قدم رکھتے ہی مشہور ہوگیا۔ لوگ اس کو ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے یاد کرنے لگے۔

یوں تو ہر شخص میں تضادات ہوتے ہیں۔ عام آدمی کے تضادات کو کوئی گہری نظر سے نہیں دیکھتا۔ مگر وہ شخص جب ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پارٹی بناتا ہے، سو، سوا سو لوگوں کے درمیان، اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ جسے باپ کہتا تھا، اسی ایوب خان کے خلاف وہ تحریک شملہ معاہدے کا نام لیکر چلائے گا اور قوم کھنچی چلی آئیگی۔ وہی تمام رنجشوں اور محرکات سے گزر کر جب پہلی دفعہ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، پھر صدر اور بعدازاں وزیراعظم پاکستان بنتا ہے، تو بےدھڑک ڈاکٹر مبشر حسن کو ملاقات کے لئے آنے پر، برہم ہو کر کہہ اٹھتا ہے ’’بغیر ملٹری سیکرٹری کی اجازت تم اندر آگئے ہو‘‘ ایسے فقرے سن کر چاہے وہ کھر جوان کا ڈرائیور ہونے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ چاہے جے رحیم ہو کہ آئین کا مسودہ محمود علی قصوری کے ساتھ مرتب کررہا تھا اور چاہے خورشید حسن میر ہو۔ سب حیران ہو کر بھٹو کے بدلے ہوئے رویے دیکھتے اور خاموش رہتے کہ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھےکہ کبھی کسی نے بھٹو کے رویے یا فیصلے کی تو ثیق نہیں کی۔ آٹھ نو وزیروں کو کھانے پہ بلا کر متذکرہ زیرک وہ دھنائی کرتے تھے کہ کوئی بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ ایسے مواقع بارہا آئے۔ حد تو اس وقت ہوئی جب کہ اپنے ہی منتخب کردہ فوج کے سر براہ کو بلا کر، ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں ڈیڑھ گھنٹے تک بٹھایا اور جب بھی اس کا تذکرہ ہوتا تو ہنس کر Monkey General کے نام سے بلاتے تھے۔ ابھی وہ فوجی سربراہ نہیں بنا تھا۔ ملتان کا کور کمانڈر تھا۔ مسعود اشعر اس زمانے میں ملتان میں روزنامہ امروز کا ایڈیٹر تھا۔ ایک رات بھٹو صاحب ملتان میں ٹھہرے تھے۔ وہ بہت کم سویا کرتے تھے، رات کے دوبجے کے قریب برآمدے میں کسی کے چلنے کی آواز سن کر باہر نکلے تو دیکھا کہ ملتان کا کور کمانڈر، برآمدے میں چوکیدار بنا، گھوم رہاہے۔ بھٹو صاحب نے وجہ پوچھی تو بڑی مسکینیت سے بولا ’’میں اس لئے جاگ رہا ہوں کہ شاید آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو‘‘ وہی شخص اگلے دن شام کو دیگوں کےڈھکن اٹھا کر کھانا چیک کررہا تھا۔ بھٹو صاحب کو ایسا چیف آف آرمی بنانے پر فخر تھا کہ میں نے چھ سات سینئر لوگوں کو چھوڑ کر اس کو منتخب کیا ہے۔

بھٹو صاحب، جنہوں نے احمد فراز کو اکیڈمی کا پہلا سربراہ بنایا تھا۔ اس نے پہلے مشرقی پاکستان، پھر بلوچستان میں آرمی ایکشن کے خلاف نظم لکھی تو اس کو آرمی ایکشن کے ذریعہ اغوا کروایا۔ اٹک کے قلعہ میں قید تنہائی میں رکھا۔ اس پر فوجداری مقدمہ، فوجی سربراہ کو کہہ کر بنوایا۔ جب ہم لوگوں نے عدالت کے ذریعہ فراز کی ضمانت کروائی۔ پھر بھی رہا نہیں کیا گیا اور مقدمہ واپس نہیں ہوا تو ہم نے میڈم کے ذریعہ بلیک کوئین سے التجا کی اور بھٹو صاحب نے اسی سربراہِ فوج کو احمد فراز کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ ہے 27جون کا۔ مسعود اشعر اور میں حکم کے مطابق فوجی سربراہ کے دفتر حاضر ہوئے۔ ہماری بڑی خاطر کی گئی۔ تھوڑی دیر بعد سربراہ آئے اور پھر فراز کو لایا گیا۔ اس دن کوئی آدھے گھنٹے تک اس شخص نے بھٹو صاحب اور جمہوریت کی ضرور ت کے حوالے سے ہمیں لیکچر دیا۔ پھر فراز کو کہا ’’وہ نظم تو پڑھ کر سنائو‘‘ فراز نے کہا ’’مجھے یاد نہیں‘‘ صاحب بہادر، جن کے دانتوں کا مذاق، بھٹو صاحب اڑایا کرتے تھے، نے اپنی دراز سے وہ نظم نکال کر فراز کے ہاتھ میں پکڑائی اور ہم صدیق سالک کی شرارت کی پوری کہانی نظم کے حوالے سے سمجھ گئے اور پھر 5؍جولائی کو پاکستان میں مارشل لا لگ چکا تھا۔

بھٹو صاحب کی زندگی اور سیاست کے تضادات کا فکری اور نفسیاتی تجزیہ شمیم احمد صاحب نےاپنی کتاب میں کرتے ہوئے، ان سب سیاسی آمروں کی مثالیں بھی دی ہیں، جن کی جھلک بھٹو صاحب کی جمہوریت زدہ آمریت میں نظر آتی تھی۔ ویسے بھٹو صاحب کو فن اور ثقافت سے بھی بےپناہ عقیدت تھی۔ وہ فرانس کی طرز پر احمد فراز کو اور پی این سی اے میں فیض صاحب کو لگا کر بہت خوش تھے۔ ایک دفعہ فیض صاحب روس گئے ہوئے تھے۔ حفیظ پیرازہ کی خالد سعید بٹ نے ایسی چاپلوسی کی کہ جب فیض صاحب واپس آئے تو ان کی کرسی پر خالد بیٹھا تھا۔ بھٹو صاحب کو علم ہوا تو وہ سیدھے فیض صاحب کے گھر گئے۔ کہا:آپ اگر لاہور ہی رہنا چاہتےہیں تویہاں دفتر بنا لیجئے۔ آپ میرے ساتھ رہیں گے۔

بھٹو صاحب ہرفائل کے مارجن پر بہت خوبصورت مزاح سے بھرپور فقرے لکھا کرتے تھے۔ اگر وہ صبح کے وقت لاہور آ رہے ہوتے تو سارے افسران جو ایئرپورٹ آتے تھے تو ان کو برائون جوتے پہن کر آنے کی تاکید اور شام کے وقت کالے جوتے پہننے کی تاکید کرنے کے لئے، ایک افسر کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔

جب ہمارے 93ہزار فوجی اور سول لوگ PoW بنے انڈیا کی قید میں تھے۔ لاہور میں ان کی بیگمات اور بچے جلوس نکالتے تھے۔ بھٹو صاحب لاہور آئے اور مجھے کہا کہ ان خواتین کے ایک گروپ کو میرے پاس لائو۔ خواتین بھٹو صاحب سے باتیں کرتے ہوئے رونے لگیں تو بھٹو صاحب بولے ’’میرے سامنے مت رو، میں تمہیں یورپی ممالک بھیجتا ہوں، تم وہاں اپنا دکھ بیان کرو اور رو مگر تم لوگ نہ میک اپ کروگی نہ شاپنگ‘‘ اس کا بہت اثر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد PoW واپس آنے لگے تھے۔

اب آخر میں صاحب کتاب کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ بڑے افسران ریٹائر ہوکر روئیداد صاحب کی طرح شیخی میں اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں۔ لیکن ہمارا صاحب کتاب، اگر کچھ لکھتا ہے تو پہلے میر اور غالب کو یاد کرتا ہے۔ ظفر اقبال اور شمس الرحمان فاروقی پر غصہ اتارتا ہے اور اب یہ کتاب جو بھٹو کے نفسیاتی مسائل کی تشریح کرتے ہوئے وجودمیں آئی۔ انتہائی اعتدال کے ساتھ تحریر کردہ ہے۔ البتہ ساری دنیا کی کتابوں میں، مجھے اس ماں کی تلاش رہی، جس نے بھٹو کو جنم دیا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین