• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقیاتی کاموں کے نام پر شہر کو جو آثار قدیمہ بنانے کا سلسلہ جاری ہےدو دن کی بارش نے اس کی رہی سہی کسر پوری کر دی۔ سڑکیں پہلے ہی تباہ حال تھیں، بارش نے انہیں اور نا قابل استعمال بنادیا۔ جگہ جگہ پانی کھڑا ہے، صفائی اور پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں، میئر کراچی کو فنڈ کی عدم فراہمی کا شکوہ ہے، جب کہ تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے جانے کہاں سے فنڈ مل رہے ہیں۔ کراچی ایک بار پھر اسٹریٹ کرائم کی آماجگاہ بننے چلا ہے۔ ہر روز لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی روک تھام کا غلغلہ تو بہت ہے لیکن نتیجہ صفر ہی نظر آرہاہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے جہاں کاروباری حضرات تباہ ہو رہے ہیں وہیں ان دکانوں میں کام کرنے والے ملازم افراد کی بے روزگاری ان مالکان کے مقابلے میں کہیں شدید ہے۔ مالکان دکانداروں کے پاس تو کچھ نہ کچھ سرمایہ ہوتا بھی ہے لیکن ملازم کے پاس تو ہر ماہ ملنے والی تنخواہ کے اور کوئی وسیلہ نہیں۔ سوائے قرضہ لینے کے، لیکن موجودہ حالات میں قرضہ دینے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرضہ اگر دے بھی دیا تو واپسی کی امید رکھنا عبث ہے۔ اس لیے نوجوان جو بے روزگار ہو رہے ہیں وہ اپنے گھروں کے چولہے جلانے کے لیے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے، چھوٹے موٹے جرائم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت وقت نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان کیا تھا جس کا دور دور تک پتا نہیں۔ اس کے بجائے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا ہے۔ ان بے روزگاروں کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ بچوں کا پیٹ کیسے پالیں۔ حکمران وقت اور ان کے کار پرداز بیرون ملک سے سرمایہ حاصل کرنے کی فکر اور جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ ان کے ان اقدامات سے جہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو ا ہے وہیں کریلا نیم چڑھا کے مصداق مہنگائی اپنی حد سے گزر رہی ہے۔ ملک جانے کس سمت رواں ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مدینہ کی ریاست تعمیر کرنے والوں نے مدینہ جانے والوں کے لیے مکہ مدینہ کا سفر اتنا مہنگا کردیا ہے کہ عام انسان جانے کی لاکھ خواہش کے باوجود جانے کا صرف تصور ہی کرسکتاہے۔ وہ لوگ جنہوں نے پائی پائی جوڑ کر حج کرنے کی سعادت حاصل کرنے کا سوچ رکھا تھا وہ بھی اب صرف سوچتے رہ جائیں گے۔ اسی سلسلے میں ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ایک ذمہ دار خاتون کا کہنا تھاکہ اللہ نے حج صرف ان لوگوں پر فرض کیا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں جو نہ صرف حج کے اخراجات اٹھاسکیں بلکہ اپنے پیچھے گھر میں رہ جانے والوں کے لیے بھی سرمایہ چھوڑ سکیں۔ اسلام میں کہیں نہیں ہے کہ کسی قسم کی امداد وہ بھی حکومت سے لے کر حج کیا جائے۔ کیا اس سے قبل کی حکومتیں جو حجاج کی مدد کیا کرتی تھیں۔ وہ کیا اس کا اعلان عام کیا کرتی تھیں کیا وہ حجاج کرام کو جتایا کرتی تھیں کہ آپ کے حج پر حکومت آپ کی اتنی رقم سے مدد کر رہی ہے۔ حجاج کی سبسڈی یا مدد کرنے پر حکومت نے جو جواز پیش کیا وہ حیران کن ہے۔ بھارت خالص ہندومذہب کا ملک بن چکا ہے۔ وہ اب سیکولرنہیں رہا۔ اس کے باوجود بھارت میں بھی ہر حاجی کو حکومت کی جانب سے تقریباً تیس سے چالیس فی صد سبسڈی دی جاتی ہے پاکستان جو ریاست مدینہ بننے جا رہا ہے وہاں عرصہ دراز سے چلنے والی مدد کو ختم کردیا گیا ہے۔ غریب آدمی کے لیے حج کرنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ وجہ ڈالر کا مہنگا ہونا بتائی جا رہی ہے۔ ڈالر بھی کسی اور نے مہنگا نہیں کیا، خود حکومت نے کیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف وطن عزیز میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے، بلکہ عالمی سطح پر ڈالر سے منسلک تمام ممالک کی کرنسی کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے جان بوجھ کر حج پالیسی کا اعلان اس لیے تاخیر سے کیا ہے کہ لوگ اضافی ڈیڑھ لاکھ کا نہ بندوبست کرسکیں گے، نہ حج کی درخواست دے سکیں گے۔ اس طرح جانے والوں کی قرعہ اندازی بھی شاید نہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جب سرکاری حج اتنا مہنگا ہوگیا ہے تو پرائیویٹ حج ٹور والوں کے کیا دام ہوں گے۔ اب ہر کوئی آسانی سے حج نہیں کرسکے گا۔ حج پر جانے کی خواہش رکھنے والے افراد حیران و پریشان ہیں اور ان کی پریشانی دور کرنے والا کوئی نہیں۔ کیا مدینہ کی ریاست میں حج کرنے والوں کو اس طرح روکا جائے گا، پریشان کیا جائے گا۔ قدم قدم پر ریاست مدینہ کے تصور کو مٹایا جا رہا ہے۔ ریاست مدینہ صرف خیالوں میں یا زبانی کلامی بیانات سے نہیں بن سکتی۔ اس کے لیے بڑا حوصلہ اور ایمان کے ساتھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں حضرت عمر ؓکا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے اگر کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر کو جواب دینا ہوگا۔ کہاں گیا وہ حوالہ… کیا ہوا وہ وعدہ… حکمرانوں کو کیا اللہ کو جواب نہیں دینا۔

تازہ ترین