• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان حکومت کو قائم ہوئے ابھی چند روز ہوئے تھے، ملکی معیشت بدحالی کا شکار تھی۔ رہی سہی کسر اسد عمر کی نالائقیوں نے پوری کر دی تھی، مسائل کا ایک انبار سامنے تھا، ہر طرف مشکلات بکھری ہوئی تھیں، ایسے ماحول میں ایک میٹنگ ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان صدارت کر رہے تھے کہ اچانک چیئرمین این ایچ اے اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کھڑے ہوتے ہی سات ارب روپے کی ڈیمانڈ کر دی، ماحول پر سکتہ طاری ہو گیا کہ پہلے ہی پیسے نہیں ہیں اور سرکاری بابو نے اکٹھے سات ارب مانگ لئے ہیں، اسی خاموشی میں دوسری طرف بیٹھے ہوئے مراد سعید کھڑے ہو گئے اور وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہنے لگے ....’’سر ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، میں زمانہ طالب علمی سے آپ کے ساتھ ہوں، جب طالب علم رہنما تھا تب بھی آپ کی رہنمائی حاصل تھی، جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن ممبر تھا۔ تب بھی آپ کی قیادت میسر تھی۔ آج وزیر مملکت ہوں، میں نے آپ کی رہنمائی میں یہی سیکھا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں۔گھبرانا نہیں بلکہ مشکل حالات میں سے راستہ نکالنا ہے، ہمیں پیسوں کی بالکل ضرورت نہیں، میں محنت کروں گا، اسی محکمے سے پاکستان کے لئے پیسے پیدا کروں گا۔ بس آپ تھوڑا سا وقت دیں....‘‘ مراد سعید یہ باتیں کر کے بیٹھ گیا، میٹنگ ختم ہوئی۔ اس میٹنگ سے نکلنے کے بعد مراد سعید نے محنت کرنا شروع کر دی۔ آج حالت یہ ہے کہ مراد سعید نو ارب روپیہ ریکور کر کے ملکی خزانے میں جمع کروا چکا ہے، اسے شاباش ملنی چاہئے، اس نوجوان نے خسارے میں ڈوبے ہوئے محکموں کو نفع بخش بنانا شروع کر دیا ہے، ایک شاباش اسے وزیراعظم کی طرف سے مل چکی ہے، وہ پہلے وزیر مملکت تھا، جب کارکردگی میں سب سے نمایاں ہوا تو اسے مکمل وفاقی وزیر بنا دیا گیا، پوری قوم کو ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ اس نے محکمہ ڈاک میں بھی جان ڈال دی ہے۔اس نے مہنگائی کے دور میں کم پیسوں میں پارسل پہنچانے کا بندوبست کر دیا ہے۔ یہ سہولت صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ بیرون ملک بھی حاصل ہے۔

عمران خان حکومت میں شامل دوسرے وزیر کا نام عامر کیانی ہے۔ عامر کیانی کا ساتھ عمران خان کے ساتھ بہت پرانا ہے۔ مراد سعید کی طرح عامر کیانی بھی پی ٹی آئی کا ’’چہرہ‘‘ ہے۔ صحت کا یہ وزیر دن رات محنت کر رہا ہے کبھی وہ سندھ کے کسی اسپتال میں ہوتا ہے تو کبھی رات کے دو بجے پنڈی اسپتال میں۔ حال ہی میں عامر کیانی کی وزارت نے صحت کارڈ کا پروگرام متعارف کروایا ہے، اس پروگرام پر پورے پاکستان میں عملدرآمد ہو گا۔صحت کارڈ کے باعث وہ لوگ بھی علاج کروا سکیں گے جو علاج کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ پروگرام بیمار پاکستان کو صحت مند اور توانا بنانے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ عامر کیانی کی صلاحیتوں کا بھی کھلا اعتراف ہونا چاہئے۔

شیخ رشید کی کامیابیوں کا تذکرہ میں پچھلے کالم میں کر چکا ہوں۔ اپوزیشن کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم دینے والے فواد چوہدری کی وزارت کا عجیب حال ہے۔ پچھلے دنوں ایک ملاقات میں مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے فواد چوہدری سے کہا کہ تمہاری وزارت کا حال اس عورت جیسا ہے جس کے شوہر ہونے کے دعویدار چھ افراد ہوں، اس جملے پر فواد چوہدری نے مسکراتے ہوئے کہا ’’بھائی جان! چھ نہیں نو افراد ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ نو سے بھی ایک دو زیادہ ہی ہوں‘‘ آٹھ فروری کو عالیہ شاہ کی کتاب ’’عمران خان اور نیا پاکستان‘‘ کی تقریب رونمائی میں بھی، میں اور فواد چوہدری دو روز پہلے والی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

خواتین و حضرات! وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے مگر یقین کیجئے کہ اگر آپ کے ملک کا وزیراعظم یہ نہ ہوتا تو آپ کا ملک دیوالیہ ہو چکا ہوتا، یہ اس کی ہمت ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی بیرونی دنیا سے سرمایہ لے آیا ہے، پاکستان میں قریباً ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ ایک امریکی جریدے کے مطابق پوری عرب دنیا عمران خان کے گرد منڈلا رہی ہے۔ عرب دنیا کے علاوہ بھی کئی ایک ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آ رہے ہیں، پاکستان سیاحت کے دروازے بھی کھول رہا ہے دربار صاحب کرتار پور کے اردگرد بہت کچھ تعمیر ہونے جا رہا ہے۔ دنیا گوادر میں سرمایہ کاری کر رہی ہے چین پاکستان سے بنجر زمین مانگ رہا ہے تاکہ وہاں لہلہاتی فصلیں کھڑی ہو سکیں۔ چین خاص طور پر کپاس کی کاشت میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔ انرجی سیکٹر میں روس کے علاوہ کینیڈا بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔ شاید اسی لئے وزیراعظم عمران خان نے دبئی میں برملا کہا ہے کہ ’’سرمایہ کار آئیں، موقع ضائع نہ کریں‘‘ وزیراعظم نے گڈ گورننس کی بات کی ہے۔

گڈ گورننس کی بات درست مگر عمران خان کو آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکو کارا کو نہیں بھولنا چاہئے۔ اسی طرح پچھلی حکومت میں زیر عتاب رہنے والے وسیم اجمل کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے سرکاری افسر ہوتے ہوئے نمل یونیورسٹی کے لئے بہت تعاون کیا تھا جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔ اس دوران سیف اللہ نیازی کے ذریعے عمران خان سے پیغامات کا تبادلہ بھی ہوا تھا، ہائیکورٹ وسیم اجمل کو بھی درست قرار دے چکی ہے، اب اس کا گریڈ اکیس کے لئے کورس تھا مگر نواز، شہباز کی چہیتی بیورو کریسی آج بھی وسیم اجمل سے دشمنی کر رہی ہے۔ انہوں نے اس کا نام ڈراپ کرا دیا ہے یہ کوئی پوسٹنگ نہیں تھی محض کورس ہے مگر ناانصافی ہوئی ہے۔ انصاف کی حکومت ذرا جائز ہ لے کہ آر ٹی اے اوکاڑہ اور بلدیہ میں کون بھتہ لے رہا ہے؟ کہاں ہے بزدار حکومت کی انتظامیہ؟ افسران میں سے کچھ کالی بھیڑیں حکومت کو بدنام کرنا چاہتی ہیں، ان کا قلع قمع ضروری ہے۔

اور اب دو شاعرات بہنوں کی بات ہو جائے۔ فاخرہ انجم اور نائلہ انجم دونوں خوبصورت شاعرہ ہیں، لاہور کے ادبی افق پر دونوں کا نام چمک رہا ہے۔ پہلے نائلہ انجم کا شعر سن لیجئے کہ؎

خطا آنکھوں کی اس میں کچھ نہیں ہے

نظر آئے جسے وہ دیکھتا ہے

اب ذرا فاخرہ انجم کا شعر دیکھئے اور لطف ادب سے فیض پایئے؎

تیری آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے

لے کے بیٹھا ہے تو گمان میں کیا

تازہ ترین