• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ایک شخص کی دس سال قتل کے الزام میں جیل میں رہنے کے بعد رہائی کی خبر مجھے کوئی 30سال پیچھے لے گئی اور ان قیدیوں کے کچھ ایسے واقعات یاد آگئے جنہیں پتا ہی نہیں تھا کہ انہیں قید کیوں رکھا گیا۔

یہ خبر راقم نے ہی دی تھی کہ 27سال بعد قیدی کی رہائی۔ اسے جب سینٹرل جیل کراچی سے رہا کیا گیا تو اس نے جیلر سے ایک ہی سوال کیا۔ ’’صاحب، مجھے یہاں رکھا کیوں گیا تھا اور میں کہاں جائوں گا۔ مجھے یہیں رہنے دیں‘‘ یہ 85کی دہائی کی بات ہے جب میں کورٹ رپورٹنگ کرتا تھا اور شام کے اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے عام خبروں سے ہٹ کر خبر کی تلاش مجھے سیشن کورٹ شرقی میں لے آئی۔ عدالت کے پیش کار سے اچھی سلام دعا تھی۔ اس نے کہا ’’مظہر صاحب، ایک خبر ہے غریب آدمی کی جو کئی سالوں سے جیل میں ہے مگر مقدمہ ہے کہ چلتا ہی نہیں‘‘۔ میری دلچسپی کو دیکھ کر اس نے الماری سے ایک پرانی فائل نکالی۔ جس پر خاصی گرد تھی جو اس نے کپڑے سے صاف کی۔ اسے پڑھنے کے بعد میں حیران تھا کہ اس کا قصور کیا تھا۔ خبر چھپی تو سندھ ہائیکورٹ میں شنوائی بھی ہو گئی۔ سچ مانیں سماجی کارکن انصار برنی نے بڑا ساتھ دیا تھا۔ جب کیس اس وقت کے چیف جسٹس کے سامنے آیا تو اس کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے ان کی بھی آواز بھر آئی۔ ’’یہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس شخص نے اسے بند کرایا وہ مل جائے تو میں اسے نشان عبرت بنادوں‘‘۔

رہائی کے وقت اس شخص کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر جج نے پوچھا۔ ’’کہاں جائو گے۔ پیسے ہیں۔ اس نے جواب دیا۔ پتا نہیں، پیسے کہاں ہیں میرے پاس۔‘‘ انصار برنی بعد میں اسے اس کے گائوں لے گیا مگر نہ گھر ملا نہ گھر والے۔ واپس کراچی آگیا اور باقی زندگی کسی "Shelter Home"میں گزاری۔

اختر کی کہانی اِس شخص سے مختلف نہیں۔ وہ پاگل نہیں تھا مگر 35سال پاگل خانہ میں گزار دیئے۔ ماں ذہنی مریضہ تھی اور مینٹل اسپتال میں داخل تھی جہاں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی اور وہ اختر کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہو گئی۔ وہ بڑا ہوا تو اسے جانے کی اجازت نہیں ملی، کئی سال بعد رہائی ملی تو اسے باہر کی دنیا کا علم ہی نہیں تھا۔ سڑک کیسے پار کرتے ہیں۔ سگنل کیا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے بات کرتا تو اسے پاگل سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ واپس وہیں پاگل خانے میں آگیا اور درزی کا کام شروع کر دیا۔

مختار بابا گانا بہت اچھا گاتا تھا اور ایسے ہی ایک گانے سے اس کی رہائی ممکن ہو سکی۔ بات بہت پرانی۔ دور ایوب خان کا تھا اور وہ پشاور میں نوکری کرتا تھا۔ جہاں وہ کام کرتا تھا وہاں کے افسر کا اس کی بیوی پر دل آگیا۔ اس نے کسی بات پر یا اس کا بہانہ بناکر اسے دفعہ 109(آوارہ گردی) میں بند کرا دیا چونکہ وہ بااثر تھا لہٰذا رہائی مشکل ہو گئی۔ کئی سال بعد جب وہ گھر لوٹا تو اس کی بیوی افسر کی اہلیہ بن چکی تھی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں کوئی وزیر دورے پر جیل گیا اور اس کا گانا سنا تو آواز سے بڑا متاثر ہوا اور اس طرح رہائی ممکن ہوئی۔

یہ چند پرانے واقعات تھے مگر لگتا ہے ’’کچھ بھی نہیں بدلا‘‘۔ ابھی چند روز پہلے ہی محترم چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک قتل کے ملزم کی رہائی کا حکم دیا جو دس سال سے ایک غلط شناخت پریڈ کے باعث جیل میں تھا۔ دوسری طرف جس کے بیٹے کے قتل میں وہ گرفتار تھا اس کے باپ کی فریاد بھی اپنی جگہ جائز تھی کہ آخر میں اپنے بیٹے کے قاتل کو کہاں تلاش کروں۔ سب کچھ تو لٹا دیا۔ اب تک تین کروڑ خرچ کر چکا ہوں۔ پولیس کے پاس واپس جانے کا مطلب تو اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگنے والی بات ہو گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما صدیق الفاروق کے خلاف جب نیب کی تحقیقات کی خبر آئی تو مجھے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کی نیب یاد آگئی جب انہیں ڈھائی سال تک قید میں رکھ کر وہ ’’بھول‘‘ گئے ۔ یاد آیا جب معاملہ سپریم کورٹ میں آیا کہ صدیق الفاروق کہاں ہیں۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل نے کورٹ میں اعتراف کیا کہ مسلم لیگ کے رہنما کو گرفتار کر کے وہ بھول گئے تھے۔

یہ صرف ہمارے ملک میں ہی ممکن ہے کہ جہاں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ سزائے موت کے خلاف اپیل منظور کرتی ہے اور رہائی کا حکم دیتی ہے مگر خبر جب جیل پہنچتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ قیدی کو تو ایک رات پہلے پھانسی دی جا چکی ہے۔

اصغر خان کیس سے تو آپ سب واقف ہوں گے مگر بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ اس مقدمے کے مرکزی کردار ’’یونس حبیب‘‘ کو دس سال کی سزا کیسے جلد رہائی میں بدل گئی۔ مجھے اس وقت کے ہوم سیکرٹری واجد رانا کا ایک خط دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ جس طرح یونس کی سزا کم کی جا رہی ہے وہ قانون کے مطابق نہیں۔ سب سے حیران کن انکشاف یہ تھا کہ کبھی اس کا بلڈ گروپ کچھ لکھا گیا اور کبھی کچھ۔ کچھ قیدی بتاتے ہیں کہ اگر آپ جیلر کو خوش رکھیں تو بس مزے ہی مزے ہیں۔ جیلوں میں سانپ مارنے پر بھی سزا کم ہو جاتی ہے۔

اس ملک میں تو بھینس چوری کا مقدمہ سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہوا ہے تو اگر ایک سال سے کوئی بکری چوری میں بند ہے تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی کہنا غلط ہے کہ صرف سیاسی قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوتے دیکھا ہے۔ مقدمہ کہیں بنتا ہے اور قید کسی اور شہر میں۔

مگر کوئی عدالت، حکومت، قانون کسی بے گناہ افراد کے ان برسوں کو واپس نہیں لاسکتے جو اس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اور اگر قیدی کوئی خاتون ہو تو اسے ہمارا معاشرہ بے گناہ ثابت ہونے کے بعد بھی قبول نہیں کرتا۔ کسی نے قید عقوبت خانوں میں گزاری تو کسی نے پاگل خانوں میں۔ کسی کا پتا چل گیا اور کوئی نا معلوم ہی رہا۔

ایسے میں اگر کوئی شخص زندگی کے 27سال جیل میں گزارنے کے بعد اپنی رہائی کے وقت یہ سوال کرے کہ مجھے یہاں کیوں رکھا گیا تھا اور اب کیوں نکالا جا رہا ہے۔ اب میں کہاں جائوں گا تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ آج بھی جب میں اپنی خبروں کی پرانی فائلوں پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو واقعی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ 71سال بعد بھی ہماری جیلوں میں ایسی داستانیں جنم لے رہی ہیں مگر ہم اصل خبروں کی تلاش میں کب رہتے ہیں۔ اتنی درخواست ضرور ہے کہ

مر جائے گی مخلوق تب انصاف کرو گے

منصف ہو تو حشر بپا، کیوں نہیں کرتے

تازہ ترین