• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے مضمون کے بارے میں نہ جانے کیوں یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ تاریخ صرف بادشاہوں اورحکمرانوں کی ہوتی ہے۔ اس خیال نے اتنی جڑیں پکڑیں کہ تاریخ کی کتابوں میں مشکل ہی سے لکھا جاتا ہے کہ کس حکمراں کے دور میں عوام کا کیا حال تھا۔ لوگ کیسے جیتے تھے۔ دو وقت کی روزی کیسے کماتے تھے۔ کتنی محنت اور کس قدر مشقت کرتے تھے۔ ایک اور اہم بات جس کی طرف سے تاریخ کے مضمون نے نگاہیں پھیر رکھی ہیں یہ ہے کہ کس دور میں لوگ کھاتے پیتے کیا تھے۔ ان کی خوراک کیا تھی اور غذا کیسی تھی۔ میں جن دنوں لندن کے قومی کتب خانے اور انڈیا آفس لائبریری میں اردو کی قدیم کتابوں کے ذخیرے چھان رہا تھا، بڑی کوشش سے صرف ایک کتاب ہاتھ لگی جسے ہم کھانا پکانے کی کتاب کہہ سکتے ہیں۔ کتاب کا نام تھا الوانِ نعمت، لکھی تھی بُلاقی داس نے اور یہ بات ہے آج سے کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے سنہ 1876ء کی۔ یہ بلاقی داس کون صاحب تھے، اردو زبان کی تاریخ میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ یہ دلّی کے ایک کتب فروش تھے، ان کا اپنا چھاپہ خانہ تھا اور خود مصنف بھی تھے۔ میں نے ان کی لکھی ہوئی کھانے پکانے کی کتاب بہت شوق سے پڑھی کیونکہ سنہ ستاون کی تاریخی بغاوت کے بعد سب کو اپنی اپنی جان کی پڑی تھی، کتاب لکھنے کی طرف دھیان کم ہی جاتا تھا اور وہ بھی کھانے پکانے کی کتاب۔ اس کے مطالعے کے دوران آنکھیں کھولنے والے انکشافات ہوئے۔ مثال کے طور پر اُس زمانے میں لفظ دھنیا رائج نہیں تھا بلکہ اس کو کشنیز کہا جاتا تھا۔ اُس وقت بناسپتی گھی کا تصور بھی نہیں تھا۔ آج جسے ہم اصلی گھی کہتے ہیں، بلاقی داس کے زمانے میں اسے روغنِ زرد کہا جاتا تھا۔ اٹھارہ سو چہتر کے کھانوں کی جو حیرت انگیز بات اس کتاب سے ظاہر ہوئی وہ یہ تھی کہ اس میں ٹماٹر کا نام تک نہیں تھا۔ میں نے بہت ڈھونڈا، بہت چھانا، ٹماٹر نام کی شے سے بلاقی داس واقف تک نہ تھے۔ تاریخ تو ٹماٹر کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ سے بھی کہیں پہلے، اُس علاقے میں پیدا ہوا جسے آج جنوبی امریکہ کہتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ آلو اور مرچ کی کاشت بھی اسی خطے میں شروع ہوئی۔ پھر صدیاں گزریں اور جب پرتگال والے مہم جو ہندوستان کے مغربی ساحل پر اترے تو اپنے ساتھ اس طرح کی نعمتیں، خصوصاً ٹماٹر لائے۔ یورپ والوں نے اسے ٹوماٹو جیسے نام دئیے جو ہندوستان آکر ٹماٹر بن گیا۔ تاریخ اس بارے میں مزے مزے کی کہانیاں سناتی ہے۔ شروع شروع میں ایک خیال یہ تھا کہ ٹماٹر میں زہر ہوتا ہے۔ لوگ اسے کھانے سے کتراتے تھے۔ شاید اُسی زمانے میں یہ خیال عام ہوا کہ یہ پھل دیکھنے میں خوب صورت بہت ہے چنانچہ اسے سجاوٹ کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ کھانے کا چلن اس وقت بھی نہیں تھا۔ پھر جب ٹماٹر کے ذائقے کے بھید کھلے اور اس کا استعمال عام ہونے لگا تو پتہ چلا کہ ہندو اسے کھانے سے انکاری ہیں۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ اسے بدیسی لوگ لائے ہیں، ہند والوں کو چاہئے کہ اسے نہ کھائیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ہندوؤں کو اس میں گوشت کی مشابہت نظر آتی تھی اسی لئے وہ گریز کرتے تھے۔ سچ پوچھئے تو ہندو برادری میں کتنے ہی لوگ ایسی سبزیوں اور ترکاریوں سے پرہیز کرتے ہیں جو دسترخوان پر آکر گوشت جیسا احساس دلاتی ہیں۔ میں اگر غلط نہیں تو کچھ لوگ اسی بنا پر پیاز اور لہسن بھی نہیں کھاتے بلکہ ایک طبقے نے طے کیا ہوا تھا کہ زمین کے نیچے پیدا ہونے والی ترکاریاں نہیں کھانی چاہئیں۔ لیکن آلو نے ایسے تمام خیالات کو باطل کر دکھایا اور کیا ہندو کیا مسلمان، ہمارے کتنے ہی کھانے آلو کے گرد گھومتے ہیں۔ خصوصاً ہمارے آلو گوشت کا تو گوگل تک میں ذکر ہے، ہمارے بعض اکابرین کی آلو گوشت پر جان جاتی ہے۔

ہم ایک بار پھر آتے ہیں اسی چمکتے دمکتے، سرخا سرخ، خوش رنگ، خوش وضع اور خوش ذائقہ ٹماٹر کی طرف کہ یہ نہ صرف ہمارے کھانوں کو لذیذ بلکہ خوش رنگ بھی بناتا ہے۔ قلّت ہو جائے یا مہنگا ہو جائے تو لوگ بپھر جاتے ہیں۔ کئی بار تو ٹماٹر کے نام پر فساد اور ہنگامے ہوئے۔ ایک مرتبہ تو ایک فوجی حکمراں کو قوم سے خطاب کرنا پڑا اور ذرا سوچئے کہ حاکم وقت لو گوں کو سمجھا رہا ہے کہ ٹماٹر نہ ہو تو کھانے میں کون کون سی دوسری چیزیں ڈالی جا سکتی ہیں۔ یہ بلا جس کا نام ٹماٹر ہے کبھی کبھی ہمارے غریب کاشت کاروں کو بڑے دکھ دیتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس کی پیداوار کم ہو تو دام بڑھ جاتے ہیں۔ کسان سمجھتا ہے کہ اس کی کاشت میں بڑا منافع ہے، وہ دوسری چیزیں چھوڑ کر ٹماٹر اگانے پر لگ جاتا ہے اور بازار میں ٹماٹر کے انبار لگ جاتے ہیں اور غریب ٹماٹر ٹکے بھاؤ بکنے لگتا ہے یہاں تک کہ پودوں پر لگے لگے گلنے سڑنے لگتا ہے آڑھتی مال نہیں اٹھاتا اور کسان کے گھر فاقے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگلے برس وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹماٹر اگانے سے توبہ بھلی۔ اس طرح پہیہ گھوم کر وہیں آجاتاہے اور پھر قحط پڑ جاتا ہے۔

امریکہ سے ٹماٹر کا پودا شاید اسپین والے لائے تھے۔ ان کے ہاں افراط سے اگتا ہے اور وہ تماشا ہم ہر سال ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں جب اسپین کے ایک شہر میں سینکڑوں ٹن ٹماٹر کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ٹماٹر مارتے ہیں، کچلتے ہیں، روندتے ہیں، اس میں خود بھی نہاتے ہیں اور دوسروں کو بھی شرابور کرتے ہیں، یہاں تک کہ شہر کی نالیاں کچلے ہوئے ٹماٹروں سے بند ہو جاتی ہیں۔

عجیب سبزی ہے، جہاں چاہو اگا لو، گھر کی کسی بھی کیاری میں لگا لو، سال میں کئی کئی بار پھل دے گا۔ برطانیہ میں تو کثرت سے پیدا ہوتا ہے لیکن کبھی کیڑا لگ جائے اور قلت ہو جائے تو سبزی والا نخرے دکھانے لگتا ہے۔ ایسے میں ہم بھی سبزی والے کو شکست دینے کی ٹھان کر گھر میں ٹماٹر کا استعمال بہت ہی کم کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جب کبھی وہ پوچھتا ہے کہ ٹماٹر نہیں لو گے؟ ہم بھی تڑخ کر جواب دیتے ہیں: رکھو اپنے ٹماٹر اپنے پاس۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین