• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حرا سلمان، سکرنڈ

نان خطائی برِّصغیر کی ایک مقبول اور غذائیت سے بَھرپورہلکی میٹھی سوغات ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہ مغلیہ دَور میں متعارف کراوئی گئی، جب کہ بعض کا ماننا ہے کہ یہ چین سے برِّصغیر میں آئی ۔ معنی کے اعتبار سے نان کا مطلب روٹی ہے،جب کہ خطائی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ چین کے پُرانے نام، کاتائی یا کاتھے کی بگڑی شکل ہے۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ خطائی فارسی زبان لفظ ہے اور اس کا مطلب ’’چھے ‘‘ہے، کیوں کہ نان خطائی کی تیاری میں چھے اجزاء استعمال ہوتے ہیں،جن میں آٹا، انڈے، چینی، مکھن ،گھی اور بادام شامل ہیں۔ بعض کے نزدیک گجرات کا ساحلی شہر، سورت نان خطائی کی جائے پیدایش ہے۔دراصل سولھویں صدی کے اختتام پر مغلیہ دَور میں ہالینڈ کے دو تاجروں نے برِّصغیر میں مسالاجات کی تجارت کے بدلے چیزیں بیچنا شروع کیں،توان دونوں نے اپنے قیام کا انتظام سورت میں کیا، جہاں اپنے استعمال کی غرض سےڈچ روٹی کی تیاری کے لیے بیکری قائم کی۔ بعد ازاں، جب یہ تاجر برِّصغیر سے جانے لگے، تو بیکری اپنے ایک ملازم، دوتی والا کے حوالے کردی۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ بیکری دوتی والا کے نام سے مشہور ہوگئی۔تاہم،جب ہالینڈ کے مزید تاجر بھی برِّصغیر سے واپس چلے گئے، تو ڈچ روٹی کی فروخت میں خاصی کمی آگئی۔ چوں کہ یہ مخصوص روٹی مہنگی تھی، تو دوتی والا نے اپنا کاروبار ڈوبنے سے بچانے کے لیے ذائقے میں تبدیلی کے ساتھ، روٹی کی قیمت کم کرکے اس کی فروخت درمیانے اور متوّسط طبقے میں شروع کی۔

قسمت اچھی تھی، تو کچھ ہی عرصے میں روٹی پہلے سے بھی زیادہ فروخت ہونے لگی۔ جس کے بعد دوتی والا نے اس میں مزید تبدیلی کرکے نان خطائی کی صورت یہ ایک میٹھی سوغات تیار کی، تو اس کی شہرت پورے برِّصغیر میں پھیل گئی۔ یہ سوغات مغل بادشاہوں میں بھی کافی مقبول ہوئی۔ پاکستان میں نان خطائی کی تیاری کا آغاز زندہ دِلوں کے شہر، لاہور سے ہوا۔ موجودہ دَور میں نان خطائی کے روایتی ذائقے کو حدید انداز میں ڈھال کر پیش کیا جارہا ہے اور آج شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو، جسے نان خطائی کا لذیذ، خستہ ذائقہ بہت بھاتا نہ ہو۔

تازہ ترین