• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1969ء میں جب مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان شرکت کیلئے مراکش پہنچے تو اُنہیں سعودی فرمانرواں شاہ فیصل اور اُردن کے صدر شاہ حسین نے مطلع کیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر او آئی سی کانفرنس میں بھارت کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ یحییٰ خان یہ سن کر ششدر رہ گئے کہ ایک غیر مسلم اور دشمن ملک اسلامی ممالک کی پہلی سربراہی کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے۔ انہوں نے کھلے لفظوں میں کانفرنس کے منتظمین پر یہ واضح کردیا کہ اگر بھارت نے او آئی سی کانفرنس میں شرکت کی تو وہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے واپسی کیلئے اپنے طیارے کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔ کانفرنس کے منتظمین کو جب یحییٰ خان کے ارادوں کا علم ہوا تو وہ تذبذب کا شکار ہو گئے کہ اگر دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک او آئی سی کانفرنس کا بائیکاٹ کرتا ہے تو یہ کانفرنس کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہو گی؟ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کانفرنس کے میزبان اور اُس وقت کے او آئی سی چیئرمین، مراکش کے بادشاہ شاہ حسین دوئم نے سعودی عرب کے فرمانرواں شاہ فیصل اور اردن کے صدر شاہ حسین سے مشورے کے بعد صدر یحییٰ خان کو مطلع کیا کہ بھارت کو کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ شاہ حسین کا یہ ایک بڑا فیصلہ تھا مگر اس وقت تک بھارت کے صدر فخر الدین علی احمد کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت سے روانہ ہو چکے تھے جبکہ بھارتی وفد کانفرنس میں شرکت کیلئے مراکش پہنچ چکا تھا اور جب وفد کو او آئی سی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور اس طرح بھارتی صدر جو اس وقت تک اٹلی پہنچ چکے تھے، کو واپس بھارت لوٹنا پڑا۔ بھارت نے اس واقعہ کو اپنی توہین تصور کیا اور یہ تہیہ کیا کہ وہ ایک دن ضرور پاکستان سے اس توہین کا بدلہ لے گا اور بالآخر گزشتہ دنوں 50 سال بعد بھارت اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے اپنے مقصد میں کامیاب رہا جس کے باعث پاکستان کو اجلاس کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان پر بھارتی فضائی حملوں کے 3دن بعد اجلاس میں شرکت کر کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے اور تنقید کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

او آئی سی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے اور پاکستان اس کے بانی ممالک میں شامل ہے۔ گو کہ یہ تنظیم اتنی فعال نہیں مگر یہ اسلامی ممالک کا مشترکہ فورم ہے جہاں پاکستان نہ صرف کانفرنس کے موقع پر کشمیر کے حق میں قرارداد منظور کرواتا رہا ہے بلکہ مراکش کے شہر کاسا بلانکا میں منعقدہ ایک اور سربراہی اجلاس، جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا، میں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کو کانفرنس میں مبصر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ سشما سوراج کی او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت بھارت کی سفارتی کامیابی اور ہماری ناکامی تصور کی جا رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1969ء میں مراکش میں پیش آنے والی اسی طرح کی صورتحال کے باوجود میزبان ملک نے ایک غیر مسلم ملک جو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے اور جسے فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہے، کو کس طرح اسلامی سربراہی کانفرنس میں مدعو کیا؟ واضح رہے کہ اجلاس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میزبان ملک سے بھارت کو دیا گیا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے اُس نے مسترد کر دیا، جس کے بعد پاکستان نے میزبان ملک کو کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ میں اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس نازک موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا اور واضح کیا کہ اگر کانفرنس میں بھارت شریک ہوتا ہے تو ترکی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا جبکہ ایران کی او آئی سی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سعودی عرب اور یو اے ای سے کشیدہ تعلقات ہیں۔

بھارت او آئی سی کے قیام سے مسلمانوں کی آبادی کی آڑ لے کر او آئی سی کا رکن بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دشمن ملک ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اور حالیہ او آئی سی اجلاس میں شرکت کر کے وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے جسے اس کی سفارتی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا بھارت کی موجودگی میں اجلاس میں شرکت نہ کرنا بالکل درست فیصلہ تھا جس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے ایک سخت اور دو ٹوک پیغام دیا کہ ’’اگر مستقبل میں کبھی بھارت کو او آئی سی کے کسی اجلاس میں مدعو کیا گیا تو پاکستان اس میں شریک نہیں ہو گا‘‘اور اگر مستقبل میں بھارت کو او آئی سی میں شامل کیا گیا تو OIC جس کا مفہوم ’’آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز‘‘ ہے، سے ’’I ‘‘کا لفظ جو اسلامی ممالک کی نشاندہی کرتا ہے، کو ہٹانا ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین