• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ 15مارچ کو دو مساجد پر دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجے میں 50افراد کی شہادت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اس اندوہناک واقعہ پر ہر اس شخص کی گردن شرم سے جھکی ہوئی ہے، جو انسانیت سے پیار کرتا اور انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت میں یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں۔

میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ قاتل کی شناخت کیا تھی اور بے گناہ مقتولین کون تھے۔ دہشت گرد چاہے کسی بھی مذہب، نسل، علاقے، قوم یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو، دہشت گرد ہے اور بے گناہ مارے جانے والے چاہے کوئی بھی ہوں، مظلوم ہیں، جن کی مظلومیت پر رونا چاہئے اور ظلم پر احتجاج کرنا چاہئے۔ میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے خود دہشت گردی کر رہے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ دہشت گرد نہ صرف انتہائی بے رحمی سے نہتے لوگوں پر گولیاں برسا رہا تھا بلکہ وہ اپنی یہ بہیمانہ کارروائی سوشل میڈیا پر دنیا کو براہ راست دکھا بھی رہا تھا۔ وہ درحقیقت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ اپنی دانست میں ٹھیک کر رہا ہے اور یہ اس کا ایک ’’عظیم کارنامہ‘‘ ہے، جو دنیا کو دیکھنا چاہئے۔ مجھے اس انتہا پسندانہ سوچ سے خوف آرہا ہے، جو دنیا میں ہر جگہ پروان چڑھ رہی ہے۔

دنیا بھر کے اہلِ دانش، اہلِ فکر اور اربابِ اختیار کو سوچنا چاہئے کہ اس انتہا پسندانہ سوچ کو کیسے روکا جائے۔ یہ اس وقت دنیا کے لئے ایٹم بموں سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ یہ سوچ نسل پرستی، مذہبی انتہا پسندی، قوم پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت (XENOPHOBIA) اور کئی شکلوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ تمام معاشروں میں رواداری اور برداشت کے رویے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ تنقید اور اختلافِ رائے کے احترام کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ انتہا پسندی کی جڑیں صرف مذہبی تنگ نظری میں نہیں ہیں بلکہ دیگر زمینوں یعنی عوامل میں بھی یہ جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔

ہر انتہا پسند شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ اس میں حق بجانب ہے اور اس کی ہر بات سچ کی کسوٹی ہے۔ انتہا پسند جنونی ہوتے ہیں لیکن انہیں ذہنی مریض قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی وہ اس بنیاد پر کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ اگرچہ ہر انتہا پسند کی برین واشنگ ہوتی ہے اور وہ نارمل انسان نہیں ہوتا لیکن اسے ابنارمل ہونے کا فائدہ بھی نہیں ملنا چاہئے۔

کچھ ماہرینِ حیاتیات کا کہنا یہ ہے کہ نسل پرستی، تنگ نظری اور نفرت انسانی جینز (GENES) میں شامل ہیں، جو اس کے انتہا پسندانہ رویوں سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن ان ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسانی تہذیب کے ارتقا نے انسان کی ان منفی خصوصیات کو کنٹرول بھی کیا ہے۔ شعوری طور پر مہذب (CIVILIZED) انسان اپنی ان خصلتوں پر قابو پا لیتا ہے۔ کچھ لوگ بظاہر مہذب ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی منفی خصلتوں کو دبا نہیں سکتے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک عمدہ مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی گفتگو ہے، جو ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے کرائسٹ چرچ کے واقعہ پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کرکے پوچھا کہ امریکہ ان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟ اس پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ امریکہ تمام مسلم کمیونٹی سے محبت اور یکجہتی کا اظہار کرے۔ ٹرمپ دنیا کی سپر پاور کو چلا رہے ہیں۔ ان کی سوچ انتہا پسندانہ ہے جبکہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے یہ باور کرا دیا کہ وہ ایک مہذب انسان ہیں۔

نسل پرستی کو کبھی مذہب، کبھی قوم پرستی اور کبھی اعلیٰ تہذیب کا رنگ دے کر صدیوں تک دنیا کی نو آبادیاتی اور سامراجی طاقتوں نے دنیا کی غلام اور مظلوم قوموں پر مظالم ڈھائے اور اپنی انتہا پسندانہ سوچ پر پردہ ڈالے رکھا۔ نو آبادیاتی تسلط کے شکار معاشروں میں آزادی کی تحریکیں چلیں تو انہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا۔ نو آبادیاتی اور سامراجی طاقتوں کے دلائل کو خود مغربی دنیا کے نشاۃ ثانیہ (RENAISSANCE) کے فلسفیوں، دانشوروں، اہلِ فن اور سائنس دانوں نے کمزور کر دیا تھا اور پھر بائیں بازو کی ترقی پسندانہ تحریکوں نے استعماری طاقتوں کو مزید بے نقاب کر دیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے دوران دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اور خصوصاً ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کے تحت مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر دنیا کو فکری مغالطوں میں الجھا دیا گیا۔ مغرب کی پرانی انتہا پسندی کو پنپنے کا جواز فراہم کیا گیا۔ اس کے لئے ترقی پذیر دنیا خصوصاً مسلم ممالک میں منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ مسلم ممالک کے انتہا پسند عناصر کو عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ انہوں نے صرف اپنے ملکوں میں ترقی پسندانہ اور اعتدال پسندانہ سوچ کو دبایا اور استعمار مخالف سیاسی طاقتوں کو کمزور کیا۔ فلسطین اور کشمیر کے عوام کی جائز حقوق اور آزادی کی تحریکوں کو بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے خلط ملط کر دیا گیا۔ یہ بھارت اور اسرائیل کی انتہا پسندانہ سوچ ہے۔ اب یہ انتہا پسندی دنیا میں جہاں بھی پنپ رہی ہے، دراصل پرانی استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل اور ان کی بحالی میں مددگار ہے۔ ہمیں اس انتہا پسندی کو روکنا ہے۔ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کرنے والے ’’برینٹن ٹیرنٹ‘‘ دنیا میں ہر جگہ پیدا ہو چکے ہیں جو دنیا میں آزادی، امن، جائز حقوق کی جدوجہد اور تحریکوں کا اثر زائل کرنا چاہتے ہیں اور تاریخ کا پہیہ واپس گھمانا چاہتے ہیں۔ اس انتہا پسندی کی وجہ سے بہت خونریزی ہو گئی ہے۔ کرائسٹ چرچ کا حالیہ اندوہناک واقعہ انسانی روح پر ایک اور زخم ہے۔

انتہا پسندی کو روکنے کے لئے دنیا آج بھی شعوری طور پر صف آراء ہے۔ اس صف بندی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم، حکومت اور عوام نے کرائسٹ چرچ کے متاثرین کے ساتھ جس یکجہتی اور محبت کا اظہار کیا، وہ قابلِ ستائش ہے۔ ہمیں مغربی ممالک کے ان غیر مسلم باشندوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے، جنہوں نے کرائسٹ چرچ کے واقعہ کی مذمت کی، اس پر احتجاج کیا اور مظلوم خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ جاپان، بھارت اور بحر اوقیانوس کے ممالک بشمول آسٹریلیا کے ان باشندوں کا ردعمل بھی قابلِ ستائش ہے، جنہوں نے انسانیت کے رشتے سے متاثرین سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ انتہا پسند ہر قوم، ملک اور خطے میں ہیں لیکن انتہا پسندی کے مخالف بھی ہر قوم، خطے اور ملک میں موجود ہیں۔ انتہا پسندی کے مخالفوں کو پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اس انتہا پسندانہ سوچ کے آگے بند باندھنا ہوں گے، جو دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے اور دنیا پر دہشت گردوں کے ذریعے استعماری طاقتوں کو دوبارہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اختلافِ رائے کے احترام، برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دنیا کی مظلوم قوموں اور گروہوں کی تحریکوں اور جدوجہد کی حمایت نہ کی جائے۔ ان کی حمایت ہونا چاہئے۔ ٹرمپ اور برینٹن ٹیرینٹ والی سوچ کی مخالفت ہی دراصل انتہا پسندانہ سوچ کی مخالفت ہے۔ یہ عہدِ جدید کی انتہا پسندی ہے، جو اس وقت دنیا کے لئےسب سے بڑا خطرہ ہے۔ دکھ اس بات پر ہے کہ قاتل اپنے کیے پر نادم بھی نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین