• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتابی باتیں اور علمی مباحث اپنی جگہ لیکن میرے نزدیک ذاتی تجربات و مشاہدات کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ مقابلتاً ایک پُرامن ملک ہے اور بظاہر اُس کے ماحول میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جمعہ کے مبارک دن جس طرح مسجد میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہ ایک ایسا سانحہ ہے، جو دنیا بھر میں مسلمانوں کو غمگین کر گیا۔ ایسے مواقع خود احتسابی کے دروازے بھی کھولتے ہیں اور ذاتی تجربات بھی یاد دلاتے ہیں۔ اِس سانحے کے بعد جس طرح نیوزی لینڈ میں ہزاروں لوگ مسلمانوں کے غم میں شریک ہوئے، چرچوں میں دعائیہ مجالس ہوئیں اور جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیراعظم متاثرہ خاندانوں کی خواتین کو گلے ملتی رہیں، اُس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مجموعی طور پر معاشرے میں ہم آہنگی اور دوستی کی فضا موجود ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ فرد واحد کا کارنامہ ہے، اگرچہ قاتل باقاعدہ ایک ایسے نظریاتی گروہ کا رکن ہے جو اُن ممالک میں غیر ملکیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی ہجرت کے خلاف ہے۔ میں نے امریکہ سے لے کر سفید فام ممالک تک بہت سے یورپی ممالک کے دورے کئے ہیں اور وہاں مہینوں تک قیام بھی۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اُن ممالک میں آمد و رفت کے دوران میں نے ایشیائی ممالک کے باشندوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ناراضی کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ اُن ممالک میں قیام کے دوران رنگ و نسل کی بنیاد پر کم تر سمجھنے کا راز اکثر فاش ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ آج سے چالیس برس قبل بھی میں نے انگلستان میں ایسے نوجوانوں کے گروہ دیکھے جو برائون رنگ کے حضرات پر فقرے کستے، انہیں واپس اپنے ملک چلے جانے کا کہتے اور اگر کبھی کبھار کوئی اکیلا ایشیائی کسی پارک میں ہتھے چڑھ جاتا تو اُس کی مرمت بھی کر دیتے تھے۔ امریکہ کسی دور میں قدرے کھلا اور تعصب سے آزاد معاشرہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ امریکہ میں اکثر امریکی دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن 9/11کے بعد میں نے امریکہ میں بھی مسلمانوں کے خلاف حقارت کو ابھرتے دیکھا۔ بہت سے اسباب میں سے ایک سبب خود ہمارا اپنا رویہ، رہن سہن اور عادات بھی ہیں لیکن یہ حقیقت ہےکہ یورپی ممالک کی نوجوان نسلیں دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے آنے والوں کو ناپسند کرتی ہیں اور اکثر اوقات اسے اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہیں۔ لوگ اپنے ممالک، گھر بار، قلبی رشتوں اور بزرگوں کی قبروں کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں کیوں جاتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی جانتا ہے۔ قانونی ذرائع سے جانے والوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد غیر قانونی طریقوں سے جانے والوں کی ہے۔ دعا کریں کہ ہمارا ملک اس قدر خوشحال، معاشی طور پر مضبوط اور تعلیمی حوالے سے اتنا ترقی یافتہ ہو جائے کہ لوگوں کو رزق کی تلاش میں دوسرے ممالک میں نہ جانا پڑے۔ دنیائے اسلام کے کئی رئیس ممالک میں مذہبی اور روحانی رشتوں کے باوجود پاکستانیوں کو کم تر اور قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران کئی بار یہ اعلان کیا کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں لوگوں کو باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے گی بلکہ جو باہر گئے ہیں وہ بھی واپسی کو ترجیح دیں گے۔ جس نئے پاکستان کا نعرہ اور تصور عمران خان نے پیش کیا تھا وہ تو محض ایک خواب لگتا ہے۔ نعروں، وعدوں اور تصورات کو عملی جامہ پہنانا یا خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ اس طرح کے کارنامے عظیم رہنما ہی سر انجام دیتے ہیں، یہ عام لیڈروں کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔

یہ بھی ایک سانحے سے کم نہیں کہ ہمارے لیڈران مسائل اور وسائل کا اندازہ لگائے بغیر ووٹ حاصل کرنے کے لئے انتخابی مہمات کے دوران ایسے نعرے بلند کردیتے ہیں جو غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہوتے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے جھوٹ کو پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور پھر جھوٹ پر جھوٹوں کے انبار لگا دئیے جاتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ جس عمارت کی پہلی اینٹ ہی جھوٹ ہو وہ عمارت کتنی پائیدار ہو گی؟ جمہوریت کے اندھے عاشق اسے جمہوریت کا حسن قرار دیں گے جبکہ ایک مسلمان کے لئے جھوٹ بولنا اور جھوٹا وعدہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ جمہوریت کے حسن کا دوسرا پہلو میرے نزدیک ایک سانحے سے کم نہیں اور وہ دوسرا پہلو ہے متضاد سیاسی گروہوں سے اقتدار کے حصول کے لئے معاہدے کرنا اور اصولوں پر کمپرومائز کرنا۔ بعض اوقات تو میں یہ سوچ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ کیا ہمارے لیڈران کو خالق حقیقی نے بیک وقت آہن اور موم کا دل عطا کیا ہے؟ وہ یوں کہ کل تک آپ جن لیڈروں کو عوامی جلسوں میں چور، ٹھگ، لوٹ مار کرنے والے اور ملکی مفادات کا سودا کرنے والے کہتے رہے، آج انہی سے نہ صرف سودے بازی کر کے انہیں اقتدار میں شامل کر رہے ہیں بلکہ قربت کی منزلیں بھی طے کر رہے ہیں۔ یہی حال حزب مخالف کی پارٹیوں کا ہے کہ باہمی دشمنی اور نفرت کا پرچار کرنے والے مشترکہ مقصد کے لئے ایک دوسرے سے معانقے کر رہے ہیں۔ اصولوں کا پرچار کرنے والے اصولوں کو اس طرح پائوں تلے روندتے ہیں کہ انسان حیرت سے تکتا رہ جاتا ہے۔ اس طرح کی بےاصولی، غیر اخلاقی اور جھوٹ و منافقت کی سیاسی فضا میں یونہی ہوتا ہے کہ بظاہر سادگی اور بچت کا پروگرام چلایا جاتا ہے اور اندر سے اراکین اسمبلی متحد ہو کر اپنی تنخواہیں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ کر کے اِس سادگی کی مہم کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ اسمبلی میں ہر روز ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے والے مفادات کے لئے شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے بےاصول اور جھوٹی سیاست کا ثمر۔ سنا ہے کہ غدر برپا ہوتے دیکھ کر کچھ طاقتور افسران نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور بہت سی مراعات لے اڑے۔ اس حرص و ہوس کے بازار میں اخلاقی قدروں، اصولی وعدوں اور خدمت کے جذبوں کا پول کھل گیا۔ وزیراعلیٰ صاحب نے تو تاریخی مراعات کا ڈول ڈال کر اپنی سادگی، شرافت اور اصول پسندی کا راز فاش کردیا۔ ہماری مروجہ جمہوریت کا تیسرا پہلو بھی سانحے سے کم نہیں۔ وہ یہ کہ لیڈران نوجوانوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جن اقدار کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں اس کے بعد نوجوانوں سے سچ بولنے، دھوکہ دہی سے پرہیز کرنے اور قانون کے احترام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ اپنے اضلاع میں ذاتی حکومتیں قائم کرنے کے لئے مرضی کے افسران تعینات کروانے والے قانون کی حکمرانی، میرٹ یا گڈگورننس کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ سطحیت اور بصیرت کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ پولیس کی اصلاح اور پولیس سے کرپشن اور سنگدلی کا کلچر بدلنے میں ناکامی کے بعد یونیفارم بدلنے پر غریب خزانے کے اربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں۔ کیا وردی کا رنگ بدلنے سے ذہن اور اعمال بھی بدل جاتے ہیں؟ مہنگائی کے بوجھ تلے کراہتے لوگ حیران ہیں کہ کیا یہی نیا پاکستان ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ لکھنے لکھانے سے معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔ نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے؟

تازہ ترین