• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعادت حسن منٹو کے سامنے ایک بار یہ سوال رکھا گیا کہ بتائیے ’’آپ کیوں کر لکھتے ہیں؟‘‘ تومنٹو نے پہلے تو پلٹ کر کہا کہ ’’یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ پھر خود ہی اس سے مراد ’’کیسے اور کس طرح‘‘ لے کراپنے لکھنے کے عمل کی بابت بتایا تھا:

’’اب آپ کو کیا بتاؤں کہ میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی بات ہے، اگر میں ’کس طرح‘ کو پیش نظر رکھوں۔ تو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں کاغذ قلم پکڑتا ہوں اور بسم اللہ کر کے افسانہ لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میری تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں۔ میں ان سے باتیں بھی کرتا ہوں، ان کی باہم لڑائیوں کا فیصلہ بھی کرتا ہوں، اپنے لیے ’سلاد‘ بھی تیار کرتا ہوں، کوئی ملنے والا آ جائے تو اس کی خاطر داری بھی کرتا ہوں، مگر افسانے لکھے جاتا ہوں۔‘‘

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افسانہ اتنی ہی سہولت سے لکھا جا سکتا ہے جس سہولت سے لکھ لینے کا منٹو نے کہا ہے ، تو اس سوال کا جواب بھی اسی تحریر میں آگے چل کر آپ کو مل سکتا ہے ۔ منٹو لکھتے ہیں:

’’افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتا ہوں مگر افسانہ دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔ان لکھے افسانے کے دام پیشگی وصول کر چکا ہوتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بچیوں کو جھولا جھلاتا ہوں۔ گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کرتا ہوں۔ جوننھے منے جوتے گھر میں جابجا بکھرے ہوتے ہیں اٹھا کر ایک جگہ رکھتا ہوں۔۔۔ مگر کمبخت افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا۔۔۔ اور میں تلملاتا رہتا ہوں۔ ‘‘

مجھے لگتا ہے ،منٹو کی یہی دو کیفیات میرے ذہن میں ہوں گی جب ایک نوجوان افسانہ نگار نے مجھ سے ایک عجیب و غریب سوال کیا تھا۔ پہلے وہ سوال اورپھر جو مجھے اس کے جواب میں سوجھا وہ عرض کیے دیتا ہوں ۔ سوال تھا :’’کیا افسانہ اتنا ہی آسان ہے کہ جو شخص، چاہے وہ شاعر ہو،محقق یا عام آدمی، جس وقت چاہے اسے لکھنا شروع کر دے ؟‘‘ میں نے یہ سوال سنا جھٹ کہہ دیا تھا کہ صاحب !آپ کے اس دلچسپ سوال کاشاید مختصر ترین جواب ’’ہاں ‘‘ بھی ہے اور ’’نہیں‘‘ بھی ۔ ایسا کہتے ہوئے مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ نوجوان کھلکھلا کر ہنس پڑے گا کہ میں واقعی ایسا سمجھتا تھا اوراب بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں۔ صاحب!ہے ناعجب بات ،مگرواقعہ یہ ہے کہ جب آپ اندر سے اتنے تیار ہو چکے ہوتے ہیں؛ پکے ہوئے رس بھرے پھل کی طرح، جس کا مزید اپنی شاخ سے لٹکے رہنا ممکن نہیں رہتا،تو افسانہ بہت سہولت سے کاغذ پر اُتر تا ہے۔ لیکن جب آپ زور زبردستی اسے لکھنا چاہتے ہیں واقعات کی چولیں واقعات پر بٹھاتے ہوئے تو یہی عمل مشقت ہو جاتا ہے۔ سوال یہی تھا نا کہ ایک تخلیق کار کے لیے افسانہ لکھنا مشکل ہے یا آسان؟ شاید نہیں ۔ میں نے پھر سے سوال دیکھا تو لگا کہ پوچھنے والے نے سوال سے کہیں زیادہ ، مجھے اس غصے کی جانب متوجہ کرنا چاہا تھا جو انہوں نے بِس کی پڑیا بنا کر سوال کے اندر رکھ چھوڑاتھا ۔ میں نے کہا غصہ تھوکیے صاحب ! دیکھیے، جو افسانہ لکھنے کی جانب خلوص سے بڑھتا ہے وہ عام آدمی کہاں رہتا ہے ۔قرۃ العین حیدر کے بارے میں قمر جمیل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اُنہوں نے طالب علمی کے زمانے میں جو افسانے لکھے تھے انھیں عزیز احمد نے مبارکباد کا تار بھیج کر سراہا تھا۔ گویا افسانہ لکھتے ہی وہ ایک عام طالب علم نہیں رہی تھیں۔افسانہ لکھنا ایک تخلیقی عمل ہے اور جو شخص فکشن کی فضا میں رہتا ہے ، اس پر تخلیق کے لمحے بہ سہولت مہربان ہو سکتے ہیں۔ اب رہا یہ اعتراض یا غصہ کہ یہ عطا شاعروں ، محققوں اور عوام پر کیوں؟ تو اس باب میں میرا کہنا یہ ہے کہ صاحب !ذرا معاملہ اوندھا کر دیکھ لیں ،اور سوچیں کہ ایک تخلیق کار ہے ،جی ’ایسا ویسا‘ نہیں بلکہ بہت اچھا اور بھاگوں بھرا تخلیق کار۔ جب وہ تخلیقی لمحوں سے نکل جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ وہی نا جسے انگریزی میںکہتے ہیں’’رائیٹرز بلاک‘‘ کے مرض کا شکار۔ تو کیا ایسے لمحوں میں وہ عام آدمی نہیں ہو جاتا؟ ہو جاتا ہے نا؟ رہا معاملہ محققین اور ناقدین کا تو اُنہوں نے بھی متن میں اپنے اپنے شعبوں سے کچھ نہ کچھ لے کر افسانے کا جزو بنانے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور جہاں جہاں وہ اس متن میں پہلے سے موجود متن کا سلیقے کاٹانکا لگا لیتے ہیں ؛ محض چونکانے یا مرعوب کرنے کو نہیں،قاری کی بے سدھ پڑی حسوں کو بھی بیدار کرنے کے لیے ، تو جانیے کہ وہ فن بنا لیتے ہیں ؛بہ صورت دیگروہ بھی’ منجی پیڑھی ٹھوکنے والا ہنر‘ہی رہتا ہے۔ ویسے منجی پیڑھی ٹھوکنے ولا عمل اتنا آسان بھی نہیں ہے۔سوچ سوچ کر لکھنا اور دوسرے متون کو ڈھونڈھ ڈھونڈ کر کہانی کا حصہ بنانا کہانی کے بیانیے میں رخنے ڈال سکتا ہے اور یہی عمل اگر ایک بہائو میں متن کا حصہ ہو جائے تو کہانی میں معنی کی کئی سطحیں رکھ سکتا ہے۔ سوچ سوچ کر لکھنے کی بات ہوئی تو میرا دھیان راجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو کے درمیان ہونے والے ایک دلچسپ مکالمے کی طرف چلا گیا۔وہی مکالمہ جو’’راجندر سنگھ بیدی سے ایک ملاقات‘‘ کے عنوان سے شمس الحق عثمانی کی مرتبہ کتاب ’’باقیات بیدی‘‘ میں موجود ہے ۔ اس انٹرویو میں بیدی نے بتایا تھا کہ وہ منٹو کی یہ بات کہ تم لکھنے سے پہلے سوچتے ہو ،لکھتے وقت سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو ، سمجھ گئے تھے کہ منٹو کے نزدیک افسانے کی یہ کمزوری تھی کہ اس کے بہائو میں رخنے پڑیں ۔ ان ہی کے الفاظ میں اس طرح کی کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہوجاتی ہے۔ افسانہ لکھنا محض تیکنیک یا مزدوری نہیں ہے یہ ایک تخلیقی عمل ہے اور اس میں کرداروں کو ایک آزاد فضا چاہیے ہوتی ہے۔ میلان کنڈیرا کا کہا یاد آتا ہے یہی کہ’’ فکشن لکھتے ہوئے، کہانی کے کرداروں کو مکمل آزادی دی جانی چاہیے، یوں کہ مصنف، اپنے خیالات کے ساتھ وہاں سے بالکل الگ تھلگ رہے، غائب رہے۔‘‘ اچھا وہ جو منشایاد نے کہہ رکھا ہے کہ’’ لکھتے ہوئے میں اپنے کرداروں کی کھال میں بیٹھ جاتا ہوں ‘‘، تو یہ بات کیا کنڈیرا کی کہی ہوئی بات کا تضاد نہیںہو جاتی ہے؟ کیا اسے رد نہیں کرتی ہے؟ یعنی مصنف کی اتنی موجودگی کہ وہ اس کی کھال میں بیٹھ جاتا ہے۔ نہیں صاحب !ذرا غور سے دیکھا جائے تو اپنے کرداروں کی کھال اوڑھ لینا دراصل اپنے وجود کی نفی ہے ۔ لکھنے والے کے وجود کی نفی۔ جب کنڈیرا یہ کہتے ہیں کہ مصنف کی موجودگی قاری کو پریشان کر سکتی ہے ۔ تو وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قاری مصنف کو نہیں دیکھنا چاہتا نہ اس کے خیالات جاننا چاہتا ہے،بلکہ وہ کہانی کے بہائو کا اسیر ہو کر ایک التباس میں آجاتا ہے اور اسے حقیقت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یہ باتیں میلان کنڈیرا نے کرسچن سالم سے گفتگو میں کہی تھیں جو اُن کی کتاب’’ناول کا فن‘‘ کا حصہ ہیں ۔ وہ طیش جو نوجوان کے سوال سے چھلک پڑا ، میرا گمان ہے کہ اِس پر نہ ہوگا کہ ایک عام آدمی یا محقق افسانہ کیوں لکھنے لگا ہے؟ بلکہ شاید اس پر ہوگا کہ وہ خرابیاں جو فکشن کے تخلیقی عمل سے افسانہ لکھنے والوں کے ہاں در آئی ہیں، اُنہیں نشان زد کیوں نہیں کیا جارہا ؟ میرا خیال ہے وہ خرابیاں کسی حد تک اوپر نشان زد ہوگئی ہیں۔ سوال میں شاعر کا حوالہ بھی آیا تھامگرمیں اِدھر دِھیان نہ دِے پایا ۔ اب اگر ایک شاعر نے ایک روشن صبح اُٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے افسانہ لکھنا چاہیے اور وہ لکھنے بیٹھ گیا ہے تو اس پر ہمارے ماتھے پرتیوری کیوں چڑھے؟ میں سوال کنندہ کے ماتھے کی لکیروں کی بابت تخمینے لگاتا ہوں تو یہی سوجھتا ہے ہو نہ ہو وہ ایک شاعر اور ایک افسانہ نگار کے ہاں تخلیقی عمل کی کارکردگی کو بالکل الگ کر کے دِیکھ رہے ہوں گے ۔ اگر ایسا ہے تو میں سمجھتا ہوں نوجوان کا یوں سوچنا اور الجھنا ایک حد تک درست ہی ہے ۔ دیکھئے !افسانے میں زمان اور مکان سے جڑ کر رہنا بہت بنیادی تقاضا ہے ۔ میں کہتا آیا ہوں کہ افسانے کامتن ایک سے زیادہ سطحوں پر بُنا جاتا ہے ۔ خارجی سطح ایک واقعہ کے دوسرے واقعہ سے جڑ کر بنتی ہے جب کہ باطن میں اِحساس اور معنیات کے دھارے بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ بیانیے کو مختلف سطحوں پر برتنے کے لیے لازم ہے کہ زبان کی کارکردگی نگاہ میں رہے ۔ لگ بھگ ایک سے معنی دینے والے الفاظ کسی جملے میں استعمال کے قرینے سے اپنامزاج بدل لیا کرتے ہیں ۔ لفظوں کی صوتیات کو نگاہ میں رکھ کر اورایک جیسی اصوات کو دہرانے سے جملے کا آہنگ بدلا جاسکتا ہے۔ اور ایسا شاعری میں بھی ہوتا ہے مگر میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ افسانے میں فکشن کا جملہ ہی استعمال ہونا چاہیے ۔ شاعرانہ وسائل کا کثرت سے استعمال بیانیہ کم زور کر دیا کرتاہے ۔ شاعر آرائشی زبان لکھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ فکشن کی تخلیقی زبان اور آرائشی زبان کا اہتمام دونوں مختلف وظیفے ہیں ۔ آرائشی زبان شاعری کے لیے مفید ہو سکتی ہے ‘ مگر افسانہ نگار کا منصب یہ ہے کہ وہ ایسی زبان کا اسیر نہ ہو ۔افسانے کی زبان کو افسانے کے تخلیقی بہائو کے زیر اثر ہی رہنا چاہیے ۔نوجوان کے چھوٹے سے سوال میں ، جو زہر بھرا ہوا تھا، اس نے مجھے بہت اُلجھایا ہے تاہم صاف لفظوں میں مجھے کہنا یہ ہے کہ ، ہم افسانہ نگاری کو آسان یا مشکل ہونے کی کسوٹی پر کیوں پرکھیں ، جب کہ فی الاصل یہ کسوٹی تخلیقی عمل کو سمجھنے والی ہے ہی نہیں ۔ دیکھیں ،جب آصف فرخی کو ایک انٹرویو میںغلام عباس نے یہ کہا تھا کہ’’افسانہ ادب کی سہل ترین صنف ہے‘‘ تو ساتھ ہی اُنہیں یہ وضاحتی بیان بھی دینا پڑا تھا کہ’’ جو چیز دیکھنے میں جتنی آسان نظر آتی ہے ، اتنی ہی مشکل بھی ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ منٹو نے اگر یہ کہہ رکھا ہے کہ ’’ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہو ، اپنے اوپر مسلط کرکے اس انداز سے بیان کر دینا کہ وہ سننے والے پر وہی اثر کرے ، افسانہ ہے‘‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فکشن کی فضا میں نہ رہنے والا آدمی بھی اس طرح کے بیان کو فکشن کا بیانیہ بنانے پر قادر ہوتا ہے۔دیکھیے محمد حسن عسکری نے افسانہ لکھنے کو کتنا آسان عمل کہہ رکھا ہے ’’واقعات کا ایک سلسلہ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں‘‘ مگر ذرا عسکری صاحب کے اپنے افسانے اُٹھا کر دیکھئے اور پڑھ کر بتائیے کہ کیا وہ محض واقعات کا ایک سلسلہ ہیں؟ نہیں صاحب! کہانی واقعات کا ایک سلسلہ ہو سکتی ہے مگر افسانہ نہیں ۔کہانی حیاتیاتی انسان سے معاملہ کرکے الگ ہو سکتی ہے مگر افسانہ نفسیاتی انسان سے بھی اُلجھتا ہے اور کہانی پن کے مجرد تصور کو توڑ کر رکھ دیتاہے اور یہیں سے ایک عام سا سہل سا عمل بھیدوں بھرا ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین