• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ کا آئندہ پانچ برسوں میں ملک میں زراعت کی ترقی پر 290؍ارب روپے سرمایہ کاری کا فیصلہ نہ صرف درست سمت میں ایک قدم ہے بلکہ ایسے حالات میں کہ غیر زرعی معیشت کے حامل سمجھے جانے والے متعدد ممالک بھی مختلف مقامات پر قطعاتِ اراضی خرید کر زرعی اشیا کی پیداوار پر توجہ دے رہے ہیں، اس نوع کے فیصلوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا نئی زرعی اسکیموں میں فی کس پیداوار میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے، پانی کے درست استعمال اور کسانوں کی قرضوں تک رسائی میں اضافہ یقینی بنایا جائے گا۔ زراعت کا انسانی زندگی اور بقا سے بنیادی تعلق ہے۔ انسان کا خمیر مٹی سے اٹھا ہے اور اسی مٹی کے اوپر، نیچے اور اردگرد سے انسان کو خوراک و لباس سمیت تمام اشیا فراہم ہوتی ہیں جن کی اسے ضرورت پڑتی یا پڑ سکتی ہے۔ زراعت ہی کے بطن سے صنعت، حرفت، ایجادات، اختراعات، تحقیق کے راستے کھلتے اور تہذیبوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ وطن عزیز جس خطہ ارض پر واقع ہے یہ صدیوں سے اردگرد کے علاقوں کے لیے خوراک اور ضروری اشیا کی فراہمی کا ذریعہ رہا ہے ۔برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت تک ہمارا پنجاب کا علاقہ آس پاس کے علاقوں کی خوراک کفالت کے لئے کافی سمجھا جاتا تھامگر دنیا کے بہترین نہری نظام اور سیلابی پانی کے بہائو اور ذخیرے کے لیے کچے کے علاقے کی صورت میں مغلیہ دور سے موجود قدرتی حفاظتی نظام کی موجودگی کے باوجود اگر ہماری زرعی پیداوار اور زرعی صنعتیں منفی طور پر متاثر ہوئی ہیں تو ان کے اسباب کا باریک بینی سے جائزہ لے کر سدباب کرنے اور سائنسی تحقیق کی روشنی میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے 8برسوں کے دوران زرعی شعبے کے اخراجات میں 60فیصد کمی کے باعث قومی معیشت کا یہ اہم شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے باعث ہمارا زرعی درآمدی بل ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ کر چار ارب ڈالر تک جا پہنچا جبکہ دساور سے منگائی جانے والی اشیا میں دو ارب ڈالر مالیت کا خوردنی تیل بھی شامل ہے۔ دنیا کی بہترین کپاس کی پیداوار والا خطہ جس کے دستکاروں کے تیار کردہ دھاگے اور کپڑے نے مشینوں کا استعمال کرنے والے ملکوں کو مسابقت میں مات دیدی تھی، اب کئی مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ دنیا کی خوش ذائقہ ترین گندم پیدا کرنے والا ملک وقتاً فوقتاً باہر سے گندم منگوانے پر مجبور ہے۔ جس ملک کے گنے کے کاشتکار اپنا گنا مناسب داموں فروخت کرتے وقت ناگفتہ بہ رویہ کے شکار بنتے ہیں، جس ملک کے لوگوں کو اپنے دیس کی خوش ذائقہ سبزیوں کے بجائے بدذائقہ بدیسی سبزیاں مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہوں اور جہاں کے لوگوں کو خوردنی تیل، ٹیکسٹائل کی صنعت اور دیگر امور میں زرمبادلہ کی آمدنی کے بجائے اخراجات کا سامنا ہو، اسےنئی آبی ذخیرہ گاہوں کی تعمیر پر توجہ دینے کے علاوہ ان خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ بھی کرنا ہوگا جنہوں نے سات عشروں میں دنیا کے بہترین زرعی خطے کو ناگفتہ بہ حالت سے دوچار کر دیا۔ جدید مشینی زراعت، جینیاتی تحقیق، کم پانی کے استعمال کی ٹیکنالوجی، فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے طریقوں نے امریکہ اور آسٹریلیا کے کسانوں کو غیر معمولی خوشحالی دی، بھارتی پنجاب میں بھی فی ایکڑ پیداوار دو گنا ہو چکی ہے۔ ہمیں کم پانی سے زیادہ فصلیں حاصل کرنے، زراعت پر مبنی صنعتوں کو ترقی دینے، ڈیری مصنوعات میں تنوع پیدا کرنے، آبی حیات و جنگلات کی حفاظت کرنے، فش فارمنگ کو فروغ دینے، برقی توانائی، ونڈ انرجی، لہروں کی توانائی اور بایو ٹیکنالوجی سمیت مقامی طور پر بجلی پیدا کرنے کے طریقوں سے فائدہ اٹھا کر ہر گائوں کو تمام ضرورتوں سے مزین ماڈل ویلج بنانا ہوگا۔ قدرت کی مہربانی سے ہمارے کئی علاقوں میں جو ڈیم وجود میں آچکے ہیں ان کی حفاظت، نہروں کی بھل صفائی، حالیہ برفباری سے حاصل ہونے والے ذخیرۂ آب کو محفوظ کرنے، آبادیوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے سیلابی پانی کی ذخیرہ گاہ کچے کے علاقے کو ناجائز قابضین سے خالی کرانے سمیت بہت کچھ کرنا ہوگا۔ وطن عزیز کی زرعی معیشت کی پہچان کو قائم رکھنا اور آگے بڑھانا ہماری اہم ضرورت ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین