• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبین علی

پدر سری سماج نے جو دنیا بھر میں کئی صدیوں سے رائج ہے۔ عورت کو مرد سے کم تر مخلوق سمجھنا شروع کیا تو اس کو عقل، علم، فہم و فراست کے درجے سے رفتہ رفتہ خارج کرنا شروع کر دیا۔ پھر کبھی ماضی میں ایک ایسا وقت آیا جب سماجی رویوں اور تضحیک سے اکتا کر عورت نے اپنے احساسات و محسوسات کو مردوں کے سامنے بیان کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ اسی لیے اسے ہمیشہ ایک پہیلی قرار دیا جاتا رہا کہ عورت ذات کی پیچیدگیوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ قدیم متعصب افکار، فرسودہ مذہبی بیانیے، چڑیلیں قرار دینا، ادب آرٹ حتی کہ مونا لیزا جیسی شاہ کار پینٹینگ بھی اس احساس کو مزید تقویت دیتی رہیں کہ عورت کو سمجھنا آسان نہیں۔لیکن کسی بھی مرحلے پر اسے خود کو بیان کرنے یا سمجھانے کی سعی نہ کرنے دی گئی۔

اگر انسانی معاشرت و ثقافت سے بڑھ کر اظہار بیان و ادب کی بات کی جائے تو ماضی میں اور آج بھی عورت کا قلم کے ذریعے اپنے یا دیگر خواتین کے محسوسات کا اظہار پدرسری سماج میں بہت سے لوگوں کی نظر میں نا پسندیدہ قرار پاتا ہے۔ پدرسری سماج میں عورت کے مختلف کرداروں اور رشتوں کے لیے الگ الگ طرز کے سانچے و معیار مقرر ہیں۔ ان مروجہ پیمانوں اور سانچوں سے ہٹ کر اس کی شخصیت کی بطور انسان شناخت ابھی تک کم یاب ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مرد ذہین اور سنجیدہ لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں اس سے ان کے احساس بر تری کو ٹھیس لگتی ہے” یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ مرد عموماً اپنے بگ باس کے طور پر عورت کی بجائے مرد کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

مصنفین کسی کی معاشرے کے حساس ترین افراد اور عکاس ہوتے ہیں۔ معاشرے کے سبھی افراد سمیت اپنےکے محسوسات کی ترسیل بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے میں عورت کا بطور مصنفہ کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس اہمیت کے با وجود وہ مصنفہ ایک الگ طرز سے سماجی دباؤ کو برداشت کرتی ہے ۔اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء مخفی شاعری کرتی تھی، مگر اس زمانے میں ان کا ذکر بطور شاعرہ کہیں نہیں ملتا۔ذرا بعد کے دور میں جھانکیں تو میر محمد تقی میر نے اپنی کتاب نکات الشعراء میں اپنی شاعرہ بیٹی کاتزکرہ ہی نہیں کیاکیونکہ عورت کے جذبات و احساسات کو مردانہ سماج میں کسی سطح پر بھی عیاں ہونا قابل قبول نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اے آر خاتون نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بیسوں اصلاحی و نسائی ناول تحریر کیے ،مگر کبھی سماج کے سامنے نہیں آئیں۔

پرانی اقدار میں کچھ بدلاؤ ضرور آیا عورتوں کو بطور مصنفہ گھر اور خاندان کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنے لگی، مگر بیرونی اور سماجی دباؤ ہنوز برقرار ہے،شعور افکار اور اظہار کی برابر آزادی دینے کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کی اعلٰی تعلیم پروفیشنل ڈگریاں مناسب رشتے کی تلاش میں بہتر امیج پیش کرنے کی سعی بنا دی گئی ہیں۔

جنہیں سماج کے دباؤ کے سامنے اپنے خاندان سے اخلاقی حمایت ملی تو وہ یہ حق ملنے پر اپنے خاندان کی کتنی شکر گزار رہیں اس کی انتہائی مثال بانو قدسیہ تھیں جو تا عمر اپنے شوہر اشفاق احمد کی ممدوح رہیں۔

یہ وہ دور نہیں جب عورت کی عقل کو چٹیا کے پیچھے بندھا قرار دیا جائے یا اسے فساد کی جڑ، کم تر و کم عقل مخلوق قرار دیا جائے۔عورت کو صنف نازک کہنا ایک ایسا مغالطہ ہے، جس میں مشرق اور مغرب دونوں ہی مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت جسمانی، معاشی اور معاشرتی سمیت کسی بھی لحاظ سے صنفِ نازک کہلانے کی مستحق نہیں ہے، اس کے برعکس وہ ایک مضبوط شخصیت کی مالک ہے۔ آنے والے وقت میں سماجی شعور کے ارتقاء کے ساتھ، جہاں مجموعی طور پر بہتری کی صورت نظر آ رہی ہے امید ہے کہ اب یہ دھند چھٹے گی اور مرد اور عورت دونوں اظہار میں یکساں آزادی و سہولیات حاصل کر سکیں گے اور نتیجتاً ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ کر ایک بہتر سماج کی تشکیل میں ممد و معاون ہوں گے۔

تازہ ترین