• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سالوں بیت گئے اس غزل کو امر کرنے والی آواز سماعت سے گلے مِلی تو ہمیشہ کیلئے دِل میں سرایت کر گئی۔ بڑے سالوں بعد شاعر کے لفظ سمجھ کے خانے میں فٹ ہوئے اور شعر کا دوسرا مصرع ’’کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں کی پھر سچا شعر سنائیں کیا‘‘ کی تفہیم کی وحی دل پر اُتری۔ یہ حقیقت کھلی کہ جب وصال ہو نہ ہجر تو سچا شعر تخلیق نہیں ہوسکتا اس کیلئے کوئی رابطہ ضروری ہے۔ ایسی زندگی کا تصور محال ہے جو سُر سے بے بہرہ ہو کائنات کا پورا نظام سُر تال پر قائم ہے۔ ہر شے ایک خاص ردہم میں وجود رکھتی اور حرکت کرتی ہے۔ فطرت کا ہر منظر ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ ہواؤں کے مدھر سنگیت پر شاخیں رقص کرتی ہیں، پرندوں کی چہکار کے ساتھ پھول جھومتے ہیں، آبشاروں کا ترنم انسان سمیت پورے ماحول کو سر شار کر دیتا ہے، ندیوں، دریاؤں اور سمندروں کی آواز مسحور کُن دھنوں کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ غور کیا جائے تو یہ کائنات سات سُروں کی مالا ہے سُر وہ آہنگ ہے جو جسم کے روح سے بغل گیر ہونے کا باعث بنتا ہے۔ سُر وہ وسیلہ ہے جو روح کے تار چھیڑ کر زندگی کو نئے لطف سے ہمکنار کرتا ہے۔ سُر وہ رابطہ ہے جو انسانی روح کا روحِ کائنات سے مکالمے کو ممکن بناتا ہے۔ سُر وہ جادُو ہے جو وجود میں پلنے والے ابہام و شکوک کو تہس نہس کر کے ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ہر طرف امن، سکون، محبت اور رواداری کا دور دورہ ہوتا ہے۔ انسان کچھ پل کیلئے اپنا ہر دُکھ فراموش کر دیتا ہے محبت کا نغمہ نفرت کا سارا زہر کشید کر کے اُسے شہد میں بدل دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملکۂ غزل فریدہ خانم کی سالگرہ کے موقع پر ایک محفلِ موسیقی کا اہتمام کیا گیا۔ فریدہ خانم جیسے گویوں نے ایک نسل کی تربیت کی، انھیں سنوارا نکھارا، ان کے اخلاقی اوصاف اجاگر کئے، موسیقی کا علم، ادب، محبت، ریاضت اور نیک نیتی سے منسلک ہے۔ جب تک فنکار کا دل آلودگی سے مکمل طور پر صاف نہ ہو وہ سچا سُر لگانے کے قابل نہیں ہوتا۔ سُر چونکہ روح کا روحِ مطلق سے مکالمہ ہوتا ہے اِس لئے اشکوں کے اخلاص سے وجود کے اندر بنے شیش محل کو دھو کر ظاہر و باطن کی تطہیر کرنی پڑتی ہے۔ اپنی ’’میں‘‘ کو سُولی پر چڑھا کر نیا جنم لینا پڑتا ہے تب قدرت مہربان ہوتی ہے اور ریاضت کا لمبا سفر شروع ہوتا ہے۔ اسی لئے فنکار تن من کے سچے اور کھرے لوگ ہوتے ہیں۔ احترامِ آدمیت ان کی نس نس میں سمایا ہوتا ہے۔ شاعر کے لفظ صرف سطحی معنوں تک محدود رہیں اگر گلوکار انھیں سُر میں ڈھال کر ان کی باطنی معنویت سے روشناس نہ کرائیں وہ سُر کے ذریعے شاعر کے خیال کی تشریح کرتے ہیں اور اسے لوگوں کے دِل میں اُتارنے کی مشق کرتے ہیں۔ جو غزل کسی بڑے گلوکار کے سُر سے چھو جاتی ہے وہ امر ہو جاتی ہے اُسے سُر کے ذریعے ہر زبان کے لوگ سمجھ لیتے ہیں کیونکہ سُر کی زبان آفاقی ہوتی ہے۔ ہمارے فنکار ہمارے مسیحا ہیں جو اپنے سُر کے ذریعے ہمارے وجود کے نظر نہ آنے والوں دکھوں کا مداوا کر کے ہماری زندگیوں کو توازن فراہم کرتے ہیں۔ ہم چند لمحے اِن محفلوں میں اپنا کتھارسز کر کے خود کو نئے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور زندگی کے چیلنجوں کو قبول کرنے کی ہمت پاتے ہیں، ہمیں درونِ ذات جھانکنے کی ترغیب دے کر خود سے ملنے، خود کو کھوجنے اور فطرت سے جُڑت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ اپنی ذات کی نفی کر کے انسانیت کی محبت پر اُکساتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ سُر وجود کے نقطے کو کائناتی ہم آہنگی سے ایسے جوڑ دیتا ہے کہ انسان جسم کے حصار سے ماورا ہو کر ایسی وسعت اختیار کرتا ہے کہ قطرہ خود ہی دریا ہو جاتا ہے۔ فریدہ خانم موسیقی کے ایک عہد کا نام ہے اُن کی ذات برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کی روایات سے مالا مال ہے۔ سُر کے جادو سے ماحول کو مسحور کرنے والی ہستی کے طور پر انھیں جانا جاتا رہا ہے۔ وہ چونکہ عُمر کی اُس دہلیز پر ہیں جہاں اُن کیلئے گانا مشکل ہو گیا ہے مگر اُن کی پوری ذات سُر میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اُن کے ذہن میں ایک عہد زرین آباد ہے بہت سی داستانیں اُن کے دل نگر میں رقم ہیں۔ یہ داستانیں علم کا ذریعہ ہیں وہ علم جو نسل در نسل آگے چلتا ہے جس کیلئے کتابوں اور کلاس روم کی ضرورت نہیں ہوتی صرف اِن کی محفل میں تن من کو حاضر کر کے سِر نگوں ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ فریدہ خانم کے نام کی محفل در اصل موسیقی کے عہد زریں کی بازیافت کی محفل تھی۔ شرکاء محفل نے پچھلے 60 سالوں کی یادوں کو دہرا کر ایک تاریخ رقم کی۔ ملک کے نامور کلاسیکی گویوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اِس محفل کو یاد گار بنا دیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا مہدی حسن، غلام علی اور فریدہ خانم سے آگے کا سفر جاری ہے۔ اِس راہ گزر پر کوئی بڑا نام، کوئی بڑی ہستی دکھائی دیتی ہے یا صورتحال اِس کے برعکس ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس راستے کو کسی اور طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اُس فن کی طرف جو راتوں رات جنم لیتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں فوت بھی ہو جاتا ہے۔ ابھی تک کلاسیکی موسیقی کو چند گھرانوں نے سنبھال رکھا ہے اور وہ اپنے بچوں کے ذریعے اِسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں لیکن بدلتے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اُنہیں بھی کئی چیلنجز در پیش ہیں۔ ضرورت ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی ایسی اکیڈمی قائم کی جائے جس میں اساتذہ کا فن نئی نسل کو منتقل کرنے کی سنجیدہ منصوبہ بندی شامل ہو۔ فنکار نعمت اور معجزے کی طرح ہوتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے لوگوں کے دلوں میں اُتر کر اُجالے کا باعث بنتے ہیں۔محبت اور انسانیت سے جوڑنے کیلئے اِن سے بڑا مبلغ کوئی نہیں ہے جو شخص اِن کی محفل میں بیٹھے گا اُنہیں سنے گا وہ امن اور ادب کا پیرو کار ہوگا۔ پرویز رشید، عطاء الحق قاسمی، بنش پرویز، بشارت خان اور محسن جعفر کیلئے بہت ساری دعائیں اور محبتیں کہ انھوں نے ایک خوبصورت محفل کا انعقاد کر کے تاریخ رقم کر دی۔ اُمید ہے کہ حساس فنکاروں کو احترام اور محبت کا نذرانہ پیش کرنے کی روایت جاری رہے گی۔ فنکاروں کیلئے وظائف کا سلسلہ پنجاب حکومت کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر انھیں جتنی بھی شاباش دی جائے کم ہے۔ ماہانہ ملنے والا معاوضہ اُن کی عمر بھر کی خدمات کا صلہ ہے۔ یہ ایک طرح سے اُن کی پینشن ہے جو انھیں ہر حال میں ملتی رہنی چاہئے اور جن لوگوں کی درخواستیں جمع ہیں اُس پر بھی جلد فیصلہ ہونا چاہئے لیکن اِس پر اکتفاء کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہئے بلکہ فنکاروں کو اُن کے فن کے اظہار کا موقع دیتے رہنا چاہئے کیونکہ فن، اس کا اظہار اور اس کے صلہ میں ملنے والی داد اُن کی سانسوں کی طرح ہے اور یہ سانس معاشرے کی بقاء سے جڑی ہوئی ہے۔ کسی وقت اپنے من میں ڈوب کر اِس خوبصورت کائنات کو دل کی نظر سے محسوس کیجئے یہ کائنات آپ کو ایک نغمے کی طرح سُنائی دے گی وہ نغمہ جو ہر روح کے اندر موجود ہے اور جسے سُن کا خیر کا تصور نا صرف دل میں اُبھرتا ہے بلکہ زندگی کی اصل معنوں سے روشناس کرتا ہے۔ زندگی کی اصل محبت پر استوار ہے اگر نظر میں محبت اور خیر کا نور ہو تو ہی کائنات کا جمال پوری ظاہر ہو کر سامنے آتا ہے۔
تازہ ترین