• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈین الیکشن 2019، بھارت میں میڈیاکا بڑا حصہ اب قومی نہیں علاقائی ہوچکا، مقررین

برسلز(حافظ اُنیب راشد) یورپ اور انڈیا کے دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں نے انڈیا کے آئندہ انتخابات میں میڈیا کے جانبدارانہ کردار، اس کے نتیجے میں جمہوریت کی تبدیل ہوتی ہوئی ہیت اور اپنے خلاف شائع ہونے والی خبروں پر غیر ملکی صحافیوں سے انڈین حکومت کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ تنقید کے یو لیوون یونیورسٹی کے برسلز کیمپس میں انسٹیٹیوٹ فار میڈیا سٹڈیز کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں کی گئی جس کا عنوان "انڈین الیکشن 2019- میڈیا بطور سیاست کا میدان جنگ" تجویز کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کے ہر مقرر نے اس عنوان کے تحت اپنے ذیلی موضوع پر اظہار خیال کیا۔ سب سے پہلے جامعہ ملیہ انڈیا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر وبودھ پارتھا سارتھی نے Media and politics - Who on whome کے ذیلی عنوان کے تحت انڈیا میں موجود میڈیا کا جائزہ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں سیاسی جماعتوں نے میڈیا کی بااثر شخصیات کو اپنے ہاں جگہ دینا شروع کردی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اپنے حلقہ اثر کو دوسری آوازوں کو سننے سے روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ اب قومی نہیں بلکہ علاقائی ہے۔ وبودھ نے بتایا کہ انڈیا میں 24 زبانوں کے اس وقت 17000 اخبارات نکل رہے ہیں جہاں سب سے زیادہ چھپنے والے بڑے 10 اخبارات کی روزانہ پچیس ملین کاپیاں چھپتی ہیں۔ دوسری جانب 11 علاقائی زبانوں کے 390چینل ہیں جس کے ناظرین کی تعداد 1250ملین ہے۔ اس میں سے 1000 ملین افراد علاقائی چینلز دیکھتے ہیں۔ ان کے مالکان اب اکثر سیاستدان ہیں جو اسے اپنی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے سوشل میڈیا کے کردار کا بھی انہوں نے احاطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کے اس وقت ٹویٹر پر 46 ملین فالوورز ہیں جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ابتک فیس بک پر 1500000 لائکس ملے ہیں ۔ فرانس میں مقیم انڈین نژاد خاتون صحافی کلیا چکرورتی نے انڈین الیکشن کے حوالے سے فرانسیسی اخبارات کی رپورٹنگ کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا کو فرانس کے دانشور حلقوں میں اورینٹل ازم، روحانیت کا مرکز اور مذہبی لیکن سیکولر جیسے سلوگنز کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح یوگا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی اس کی پہچان ہیں۔ اسی تاریخی تناظر کے باعث انڈیا کی کمزوریوں سے متعلق سوالات اور کہانیوں میں ایڈیٹرز کی دلچسپی نہیں ۔ وہاں۔ چائنہ میں انسانی حقوق سے متعلق ہر خبر کیلئے جگہ ہے لیکن یہی سوال اگر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق کیا جائے تو اسے پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی مواقع پر انڈین اتھارٹیز سے زیادہ فرنچ اتھارٹیز دبائو ڈالتی ہیں ۔ NRC نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے اور انڈیا میں تعینات رہنے والے صحافی Floris Van Straatan نے "انڈین گورنمنٹ اور غیر ملکی میڈیا "کے ذیلی عنوان سے اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے ہوئے انڈیا پر شدید تنقید کی ۔انہوں نے کہا کہ انڈیا میں گزشتہ سال 6 صحافیوں کو قتل کردیا گیا۔ پریس کی آزادی میں 138 ویں نمبر پر ہونا انڈیا جیسی بڑی جمہوریت کے دعویدار کیلئے شرم اور فکر مندی کا باعث ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین کشمیر اور ہر وہ سٹوری جو آپ آزادانہ طریقے سے کرنا چاہیں پر بہت حساس ہیں۔ وہ ایسا کرنے والے کے خلاف پریس ویزے کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ 1990 میں جب میں نے کشمیر کا دورہ کیا اور اس پر سٹوری کی تو انہوں نے مجھے بلالیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تاثر یہ ہے کہ جو بھی غیر ملکی نمائندہ وہاں کے متعلق اپنی مرضی سے لکھنا چاہے گا اسے پریس ویزے سے محروم ہونا پڑے گا۔ لائیڈن یونیورسٹی کی وزٹنگ فیلو اور صحافی Britta Ohm نے انڈین سیاست میں(فاشزم اور اس کی حدود ) کے عنوان سے انڈین وزیر اعظم نریندرا مودی کے کردار پر خصوصی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ٹویٹر پر 46 ملین سے زیادہ فالوورز ہیں جنکے سامنے اپنے قد کو بڑا رکھنے کیلئے وہ مختلف بہروپ بھرتے ہیں۔ حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے دوران انہوں نے چوکیدار کا نام اختیار کرلیا۔ وہ الیکشن جیتنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ فاشسٹ رویے کے حامل اپنی جمہوری ہار قبول نہیں کرتے۔ ایک سوال کے جواب میں Britta Ohm نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی سے مودی کو فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ انڈین وزیر اعظم سمیت انڈیا میڈیا کے دعویٰ غلط ثابت ہوئے۔ لوگ سوال کرتے ہیں اور صرف پروپیگنڈے سے آپ جیت نہیں سکتے۔ برسلز سینٹر برائے جرنل ازم کی Chris Voeschooten نے Female reporters covering indian election کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انڈیا میں اپنے الیکشن کور کرنے کا احوال بتایا ۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں عورت ہونا ایک مسئلہ ہے ۔ ڈسٹرکٹ کلکٹر کے دفتر کے علاوہ انڈیا کے عام دور دراز شہروں میں عورتوں کیلئے ٹوائلٹ نہیں۔ عورت ہونے کے باعث ضرورت پڑنے پر انہیں شہر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر جانا پڑا۔ جس کے باعث وہ اپنے کئی انٹر ویوز سے محروم ہو گئیں۔ اس موقع پر سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی جس میں نیشنل ازم کی آڑ میں بڑھتے ہوئے ہندوتوا اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کے واقعات کو انڈیا کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ آخر میں کے یو لیوون یونیورسٹی کی Leen d'Haenens نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
تازہ ترین