• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی درندگی کا یہ عالم ہے کہ تاریخ اقوام عالم گواہی دیتی ہے کہ روز آفرینش سے انسانوں نے جتنی جنگیں لڑیں ان پر لامحدود پیسہ خرچ ہوا اور کروڑوں لوگ مارے گئے، جب بنی نوع انسان نے ترقی اور تہذیب کے زینے پر پاؤں رکھا اس دن سے انسانی ہلاکت خیزی کے نیوکلیائی اور گیسوں سے تیار کردہ خوفناک ہتھیار تیار کر لئے جس کے نتیجے میں انسان تو کیا اس کی پرچھائیاں بھی جلائی جا رہی ہیں۔ تہذیب کے داعی انسان نے بارود اور نفرت کی بو سے پوری دنیا کو مکدر کردیا وہ بھی دولت کی لوٹ مار اور دوسروں کا حق چھیننے کے لئے ڈارونزم کے تحت کمزوروں کو نیست و نابود کیا جا رہا ہے بلکہ کمزور ریاستوں کے قدرتی وسائل لوٹے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں امن اور خوشحالی کی بات کیسے کی جا سکتی ہے۔ سابق سوویت یونین کے صدر نیکتاخروشیف نے اپنے دور حکومت میں امن بقائے باہمی کے لئے ایک تحریک چلائی تھی۔ انہوں نے ثقافت کے ہر شعبے اور فلم کے ذریعے جنگ کے خلاف پروپیگنڈہ کی بھرپور کوشش کی۔ اس تحریک میں حق خود اختیاری، قومی آزادی اور انصاف کے لئے جنگوں سے بھی بین السطور نفرت کا پروپیگنڈہ کیا گیا جو درست حکمت عملی نہ تھی۔ تاہم دوسری بڑی عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے بعد دنیا بھر کے لوگوں میں جنگ کے خلاف نفرت کا اظہار ہونے لگا۔ اس کے برعکس عالمی طاقتوں نے نیٹو کے بھیس میں پہلے سے کہیں زیادہ ہر خطے میں جنگ کی کوئی نہ کوئی صورت مسلط کردی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں جنگ اچھی نہیں بچوں کی ہنسی اچھی ہے۔ آئن اسٹائن نے دل برداشتہ ہو کر کہا ”دنیا بدل گئی لیکن انسان نہیں بدلا“ بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے منڈیوں پر قبضے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ اس سے افزوں یہ کہ اسلحہ سازی میں جدت محض اس لئے لائی جا رہی ہے کہ ہلاکت خیزی زیادہ ہو تاکہ تباہ کن اسلحہ فروخت ہو اور انسانوں کی لاشوں پر منافع کمایا جائے۔ انسان پر انسان کی بالادستی قائم رہے، ملکوں ملکوں اور گھر گھر نفرتیں بڑھیں۔ اس تناظر میں برصغیر کے منفرد اداکار دلیپ کمار نے اپنے سفرنامے میں انسانی طرز عمل پرکچھ اس طرح لکھا۔ ”ہم جب برلن پہنچے تو میرے ساتھ بھارتی سجنی اور یورپی نوجوان بھی تھا دونوں نے برلن کی دیوار کو دیکھ کر کہا کہ یہ کیسی ہٹ دھرم نسل کا کارنامہ ہے کہ جس نے ایک قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا لیکن میں (دلیپ کمار) سوچ رہا تھا کہ برلن کی دیوار تو سامنے کھڑی ہے یہ مانا کہ یہ شوریدہ نسل کا انوکھا کارنامہ ہے لیکن میرے دوستوں نے نظر نہ آنے والی دیواروں کونہیں دیکھا جو نفرت اور تعصب کی لوگ گھر گھر لئے پھرتے ہیں“ پھر یہ دیکھئے کہ جو منطق کو مانتے ہی نہیں مثلاً ایک ماں یہ کہتی ہے ”جنگ کیسے مقدس نہیں ہے، میرا بیٹا تو اس میں مرا ہے“ لیکن اسے کیا معلوم کہ وہ کس کاز کے لئے مرا ہے، کس کے لئے اور کیوں؟ وہ تو اپنے جگر گوشے کے مرنے پر جنگ کو مقدس ہی سمجھے گی۔ اسی لئے ہتھیاروں کو دیکھ کر بھوکا رقص کرتا ہے۔ امریکی سائنس دان مورلیز نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ ”ہم نے ایک ایسا بم ایجاد کر لیا ہے کہ جس کی آواز اس قدر تیز ہے کہ سن کر انسان کے چیتھڑے ہو جائیں گے اور گیسوں کے شعلوں سے انسان بھسم ہو جائے گا“ اس عہد تشویش میں آج جاہل سائنس دان ہلاکت خیزی اور تباہی کی دریافت پر نازاں ہیں اور امن و خوشحالی کے دشمن ہیں،کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ بھی تو کرنسی اور اجارہ داروں کے اسیر ہیں۔
ایسے عالمی بے حسی کے حالات میں اپنے ملک کو دیکھیں تو عیاں ہے کہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ملک کس قدر غریب اور قرضدار ہے پاکستان میں جاگیرداری نظام میں بھونڈی کلونیل تعلیم بھی لوگوں تک نہیں پہنچی۔ دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ زمین بیل کے سینگوں پر کھڑی ہے اس لئے یہاں لوگوں کو ”برین واش“ کر کے کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ پھر سرمایہ داری غلامی کے لئے موزوں ہے، جمہوریت کے لئے نہیں۔ حال ہی میں ایک ایسے ملک پر ایک شخص آسمانی مخلوق کی طرح اچانک اتر آیا۔ کینیڈین شہری ہے، دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے لئے نہیں تاہم اسلامی تعلیم دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنانے کے بجائے اپنا دیوانہ بناتے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں میرے ماننے والے میرے لئے گھر بار، گاڑیاں اور اپنے دیگر اثاثے فروخت کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔
باشعور عوام اس طرح انقلاب برپا نہیں کرتے یہ تو شخصیت پرستی ہے۔ ابھی دنیا میچور نہیں ہوئی یہ ریاست اور آئین درست کرنے والی شخصیت کو بھی معلوم ہے اسی لئے دنیا جنگ سے کم اور بھوت پریت سے زیادہ ڈرتی ہے۔ یہ دقیانوسی پڑھے لکھے رہنماؤں میں بھی ہے ہمارے نامور وزرائے اعظم نے ننگے پیر سے اقتدار میں آنے کے لئے ڈنڈے کھائے ہیں۔ ایک دور غالب کا تھا انہوں نے بھی دل برداشتہ ہو کر کہا تھا ”جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی، دیدہٴ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے“ اب جو مذکورہ رہنما دفعتاً دہری شہریت سمیت آئے ہیں، انقلاب نہیں آئینی اصلاحات چاہتے ہیں اور نگراں سیٹ اپ میں مرکزی عہدہ حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ حال ہی میں روزنامہ جنگ ہی میں ایک لکھاری نے لکھا ”وہ راست باز، ایماندار اور امین بھی نہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ان پر حملے کو من گھڑت قرار دیا ہے“۔ اب اچانک نمودار ہوئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ریاست بچانے آیا ہوں، سیاست نہیں حالانکہ ریاست بچانے کے لئے فوج بیٹھی ہے اور ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اچانک آنے والے انتخابات بھی نہیں لڑ رہے کہ کہیں دہری شہریت سے نہ جائیں۔ پہلے بھی مشرف حکومت میں مرکزی عہدے کے خواہشمند تھے، نہ ملا، استعفی دے دیا، باہرچلے گئے اور اب کتاب دوستی کا ذکر بھی کرتے ہیں اور جمہوری نظام میں تھوڑا سا رد و بدل چاہتے ہیں تاکہ لوگ گٹر کا پانی ابال کر پیئں۔ جاگیرداری ، عالمی سرمایہ داری، سامراجی ہتھکنڈے، بینکوں کا استحصال، عالمی تجارتی تنظیم کے ذریعے نام نہاد آزاد تجارت کے غریب دنیا کو نقصانات، آئی ایم ایف کا چنگل اور عالمی بینک کے خلاف اپنے دو گھنٹے کی تقریر میں کچھ نہ بولے، سود اور کرنسی کی انسان پر بالادستی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولے، آئینی درستگی اور ریاست بچانے کا نیا انقلاب آفرین فارمولا لے کر ملین مارچ کرنے آئے ہیں۔ انتخابات اس لئے نہیں لڑتے کہ ملک میں ان کے ماننے والے20 لاکھ افراد سے زیادہ نہیں ہوں گے اور وہ بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ شاید ایک سیٹ بھی نہ آئے روز عجیب و غریب منظر دیکھ کر مجھے تو لگتا ہے کہ کافی عرصہ پہلے پاکستان میں دانش نے خود کشی کر لی اور اب یقین ہو گیا ہے کہ واقعی دانش نے خود کشی کر لی ہے۔
جسے دیکھو لاکھ دو لاکھ ہجوم جمع کر کے فتح کے نعرے لگاتا ہے جو جی میں آتا ہے دعویٰ کرتا ہے عالمی سرمایہ داری، مقامی جاگیرداری اور سرداری کے ظلم کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا، یہ نہیں بتا سکتا کہ کرنسی کی قدر کیسے مضبوط ہو گی، افراط زر کیسے ختم ہوگا، دولت کی تقسیم کیسے منصفانہ ہو گی، طبقاتی تعلیم کا کیسے خاتمہ ہوگا۔ اسپتال اور یونیورسٹیاں کب سستی تعلیم مہیا کریں گی اور کیسے؟ وہی تھانے، وہی سیاست دان، وہی بیورو کریسی، وہی فوج کا کردار ، وہ شاہانہ طرز زندگی چند لوگوں کا، وہی لیزنگ پرسنل لونز اور کریڈٹ کارڈز پر40 فیصد ہر ماہ سود اور سودی معاشرہ۔ یہ کون آگیا ہے سیاست نہیں ریاست بچانے کا دعویٰ کرتا ہے ، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
دراصل قطرے میں دجلہ دیکھنے والے پاکستان سے تو کیا دنیا ہی سے ناپید ہو گئے ہیں اس لئے غالب نے کہا تھا جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے اور یہ بچوں کا کھیل پاکستان میں عام ہے۔ تاہم فیض احمد فیض مرزا غالب کی اس بصیرت افروز نقطہ رس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ”یوں کہئے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے، گرد و پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے اسے دوسروں کو دکھانا، اس کی فنی دسترس پر ہے، اس کی بہاؤ میں دخل انداز ہونا، اس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر ہے اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں“ اب خود ہی فیصلہ کریں کہ پاکستان میں بغیر عوامی جدوجہد اورتفصیلی منشور کے اہم عہدے کے لئے کوئی اچانک نمودار ہو جائے تو پہلے سے مایوس قوم مزید ابہام کا شکار ہو جاتی ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے بقول فیض
لو سنی گئی ہماری کہ پھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشہٴ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم
تازہ ترین