• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں انگلش کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر خالد حمید حسبِ معمول 8بج کر چالیس منٹ پر کالج پہنچے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ انہی کا ایک طالب علم جو مذہبی شدت پسندوں کے زیر اثر تھا، ایک تیز دھار چھری لئے کمرے کے باہر ستون کی آڑ میں چھپا کھڑا تھا۔ پروفیسر صاحب جونہی اپنے کمرے میں داخل ہوئے اس نے پہلے ایک وزنی آہنی تالا اُن کے سر میں مارا اور پھر چھری کے پے در پے وار کرتے ہوئے اُن کے چہرے، آنکھوں اور سینے کو چھلنی کر دیا۔ پروفیسر صاحب کو شہید کرنے کے فوری بعد یہ قاتل رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ استاد غیر اسلامی باتیں کرتا تھا، اس لئے میں نے اُسے مار کر بہت اچھا کیا ہے۔ اُس قاتل سے کہا جاتا ہے کہ اگر تجھے کوئی شکایت تھی تو توُ انتظامیہ یا قانون کو پیش کرتا، جواب دیتا ہے، قانون تو ہے ہی نہیں، قانون کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ پوچھ گچھ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر صاحب کالج انتظامیہ کے فیصلے کی مطابقت میں حسب روایت نئے آنے والے طلباء و طالبات کی فیئر ویل پارٹی کا اہتمام کر رہے تھے، جس پر اس طالب علم کو اعتراض تھا کہ کالج میں غیر اسلامی تقریب کیوں ہونے جا رہی ہے اور اس پر ماقبل اس طالب علم نے پروفیسر صاحب سے بد زبانی یا تلخ کلامی بھی کی تھی۔

پروفیسر خالد حمید بیچارے بے دردی سے قتل ہو گئے، اب اگر یہ قاتل پھانسی بھی لگ جائے تب بھی کسی کے پاس پروفیسر صاحب کی فیملی کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو توہینِ مذہب کے نام پر یہ پہلا قتل ہے اور نہ آخری تو پھر کیوں نہ ہم اس سوال کا جائزہ لیں کہ سوسائٹی میں جنونی ذہنیت کیونکر پرورش پاتی ہے اور اس کا تدارک کرنے کے لئے سماج یا سوسائٹی کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟دنیا میں ہر بدتر سے بدترین قاتل اور ظالم کے پاس اپنے گھٹیا افعال کا کوئی نہ کوئی جواز یا بہانہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی مہذب سوسائٹیوں میں قاتلوں کا دم بھرنے والے بہت کم ملیں گے جبکہ غیر مہذب یا کم مہذب سوسائٹیوں میں ایسے قاتلوں اور جنونیوں کے حمایتی ہر جگہ بکثرت پائے جائیں گے۔

بادی النظر میں دیکھا جائے تو کئی گوروں کے اس خدشے میں بظاہر وزن دکھے گا کہ امیگرینٹس بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص اُن کے ممالک میں آمد سے اُن کی تہذیبی قدریں اور آزادیاں خطرے میں ہیں اور پھر جس اوسط سے یہ لوگ بڑھ رہے ہیں، اس سے آنے والی دہائیوں میں گوروں کی اکثریت اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یوں وہ حاکموں سے محکوم بن سکتے ہیں اور محکومی بھی اُن لوگوں کی جو شدت پسندی، دہشت گردی یا جنونیت کی عالمی پہچان رکھتے ہیں۔ یوں یہ گورے لوگ اپنے ہی ممالک میں بے یارومدد گار بن کر رہ جائیں گے۔

درویش اپنی سیاسی، صحافتی اور مذہبی قیادتوں کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ بالفرض اسی نوع کی واردات اگر ہماری کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ روا رکھی گئی ہوتی تو ان کا رویہ یا طرزِ عمل کیا ہوتا؟ اِس طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ظلم کا شکار ہونے والی اقلیتی کمیونٹیز کے ساتھ ہمارے قومی یا عوامی رویے کیسے ہوتے ہیں؟ ہماری سیاسی، صحافتی اور مذہبی قیادتوں میں سے کتنے ہیں، جن کے سینے اس صریح ظلم پر چھلنی ہوئے ہیں؟ اس اندھی جنونیت کے خلاف جلوس اور ریلیاں نکالنا تو دور کی بات، کتنے ہیں جنہوں نے محض مذمتی بیانات ہی جاری کئے ہوں گے؟ کیا پروفیسر صاحب کی زندگی کی کوئی قدر نہ تھی کہ کوئی متشدد جنونی اٹھے اور چھریوں کے وار کرتے ہوئے اُن کی زندگی چھین لے؟

کیا ہم نے اپنے مسلمان بچوں کو استاد کا یہ احترام سکھایا ہے؟ استاد کافر بھی ہو تب بھی اُس کا احترام واجب ہے، وہ تو روحانی باپ ہوتا ہے۔ کیا آپ روحانی باپ کے قاتل سے ہمدردی رکھتے ہیں؟ اس پر دعویٰ یہ ہے کہ دنیا کی امامت و سیادت کے لیے ہم ہی پیدا ہوئے ہیں،اقبال فرما گئے ہیں کہ ’’یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود‘‘ اے میری پیاری قوم آج اگر دنیا میں غیر مسلم اقوام کی حکمرانی ہے تو یہ بلاجواز نہیں ۔ اگر آپ بھی اقوامِ عالم میں باوقار مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اندر وسعت نظری اور حوصلہ پیدا کریں۔ اپنی نئی نسلوں کو یہ سبق ذہن نشین کروائیں کہ اس کائنات میں انسان اور انسانی جان سے بڑھ کر کوئی چیز مقدس نہیں ہے۔ خدا کے اس خوبصورت ترین شاہکار احسن التقویم انسان کی ناموس اس قدر بلند ہے کہ فرشتوں کو بھی روزِ ازل یہ حکم جاری کر دیا گیا کہ انسانی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ، جو یہ دلیل لایا کہ میں انسان سے افضل ہوں، سب پر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ شیطان مردود قرار پایا۔ افسوس آج اقوامِ مغرب نے اس راز کو جان لیا ہے اور ہم جانکاری کے دعویدار انجان ہو چکے ہیں۔

انسانی وقار، تقدس اور عظمت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ بلا تمیز رنگ و نسل مذہب و ملت، جنس و عقیدہ تمام انسان برابر واجب القدر ہیں تاوقتیکہ وہ انسانیت سے گر نہ جائیں۔ اُن کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے، آپ انہیں ذہنی و فکری غلام بنانے والے کون ہوتے ہیں؟۔ وہ پُر امن طور پر جو عقیدہ یا نظریہ چاہیں، رکھیں۔ آپ اپنے عقائد و نظریات دوسروں پر کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ اے میری قوم خدارا وقت کی آواز کو سمجھو، آپ نے بحیثیت قوم UNہیومن رائٹس چارٹر پر پوری دنیا کے سامنے دستخط کر رکھے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اس کی باضابطہ تدریس بلا توقف جاری کر دو تاکہ شاہ دولوں کے دماغ کھلیں۔ ایک طرف کیوی وزیراعظم ہے جو مظلومین کا دکھ بانٹنے موقع پر پہنچیں، دوسری طرف ہمارے وزیراعظم ہیں جنہوں نے بے دردی سے قتل ہونے والے مظلوم پروفیسر کے لواحقین سے اظہارِ ہمدردی کے لیے بیان تک جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ براہِ کرم دونوں کے فرق کو جان کر جیو۔

تازہ ترین