• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

FATF ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے جو دنیا میں ٹیررسٹ فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے اقدامات کرتا ہے۔ اس ادارے نے گرے اور بلیک لسٹ مرتب کی ہیں جن میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف کمزور ریکارڈ رکھنے والے ممالک کے نام شامل ہیں۔ 2017ء کی واچ لسٹ میں لیبیا، میانمار، صومالیہ، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک FATF واچ لسٹ میں شامل تھا لیکن بعد میں پاکستان کا نام اس لسٹ سے نکال دیا گیا تاہم FATF نے حکومت پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کی فنڈنگ پر پاکستان کا نام دوبارہ اس لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے پر 22 دسمبر 2017ء کو ایک اسپیشل واچ لسٹ شائع کی تھی جس میں چین، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔

واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرنے کا مقصد پاکستان کو انتہا پسندوں کے رابطوں سے علیحدگی کیلئے دبائو ڈالنا تھا۔ پاکستان کا نام واچ لسٹ میں شامل ہونے سے ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگ سکتا تھا کیونکہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کو پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ برطانوی لا فرم کے نمائندے مائیک کیسی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام دوبارہ شامل کئے جانے کی صورت میں اس کا رسک پروفائل بڑھ جائے گا۔ پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم کے تبادلے مشکل ہوجائیں گے اور بیرونی سرمایہ کار بزنس سے متعلق قانونی خدشات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ کاروبار سے گریز کریں گے۔ اس کے علاوہ عالمی مالی اداروں سے فنانسنگ مشکل اور مہنگی ہوجائے گی۔ بھارت اور امریکہ پہلے دن سے سی پیک منصوبوں سے خوش نہیں اور ان کی کوشش ہے کہ بیرونی سرمایہ کار سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ گرے لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے پاکستانی معیشت دبائو کا شکار رہے گی جس کی وجہ سے عالمی ریٹنگ ادارے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم کرسکتے ہیں۔ ’’گرے لسٹ‘‘ سے پاکستان کا نام نکالنے کیلئے FATF ایشیاء پیسفک گروپ (APG) کی 6 رکنی ٹیم نے گزشتہ سال نگراں وزیر خزانہ، نیب، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، ایف آئی اے، نیکٹا اور مختلف سیکورٹی اداروں کے حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں کراس بارڈر کیش منی لانڈرنگ پر تشویش کا اظہار اور FATF کے 26نکاتی ایکشن پلان کا جائزہ لیا گیا تھا۔ان نکات پر عملدرآمد کیلئے عبوری حکومت نے ایکشن پلان کی منظوری دی تھی جس کی بنیاد پر اسمگلنگ روکنے کیلئے سزائوں اور جرمانوں میں اضافہ، اینٹی منی لانڈرنگ آرڈیننس 2010ء اور فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء میں مطلوبہ ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ SECP اور اسٹیٹ بینک نے بھی اینٹی منی لانڈرنگ قوانین پر عملدرآمد کیلئے سخت اقدامات اٹھائے ہیں جس کے بعد منی لانڈرنگ میں ملوث افراد اپنی شناخت نہیں چھپاسکیں گے اور بینکوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اکائونٹ کے حقیقی مالک کی شناخت کریں۔ حکومت کو بھی یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور خیراتی اداروں کے اثاثوں کی شناخت کرکے اُسے اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شیئر کرے جس کیلئے حکومت کو 31اکتوبر 2019ء تک کا وقت دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نجی بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو بھی اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے بارے میں معلومات اور ٹریننگ فراہم کرنے کا پابند کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں آج کل ان کی ایک جائزہ ٹیم پاکستان آئی ہوئی ہے۔

حال ہی میں FATF نے پاکستان کو 15شرائط دی ہیں جس پر مئی 2019ء تک عمل کرنا ہے بصورت دیگر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کیا جاسکتا ہے جبکہ FATF نے اپنی گزشتہ پیرس میٹنگ میں مزید 3 شرائط بھی جائزہ میٹنگ کیلئے پیش کی ہیں جس میں ملک میں کیش کرنسی کی اسمگلنگ کی روک تھام قابل ذکر ہے جس پر اسٹیٹ بینک نے قوانین میں مطلوبہ ترامیم کردی ہیں۔ اس طرح جون 2019ء میں کولمبو میں ہونے والی جائزہ میٹنگ میں FATF مجموعی 18 شرائط پر عملدرآمد کا جائزہ لے گا جس میں ستمبر 2019ء تک یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا پاکستان کا نام گرے لسٹ سے کلیئر کیا جائے یا بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے۔ FATF کی شرائط میں بینکنگ نظام اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی قوانین میں تبدیلی، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک میں باہمی تعاون کا معاہدہ اور اس پر عملدرآمد، نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی بحالی، بینکوں میں بے نامی اکائونٹس کا خاتمہ اور اکائونٹ ہولڈرز کا جاننا (YKC)، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تعاون، ایف بی آر، نیب اور اینٹی نارکوٹکس فورس میں قانونی اصلاحات اور باہمی تعاون، کالعدم تنظیموں جن میں جیش محمد اور القاعدہ بھی شامل ہیں، کے خلاف کارروائی اور اُن کے اثاثوں پر کریک ڈائون وغیرہ شامل ہیں۔ بھارت نے اس مشکل وقت میں جب FATF پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج یا بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا جائزہ لے رہا ہے، پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری جیش محمد پر عائد کی ہے جس کا مقصد پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے۔ FATF نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ دہشت گردی کے یہ واقعات دنیا کے امن پسندوں کیلئے خطرہ ہیں جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کے بغیر ممکن نہیں جن پر جلد از جلد قابو پانا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ تحریک انصاف کی نئی حکومت نہ صرف ان اصلاحات پر عمل کررہی ہے بلکہ 44کالعدم تنظیموں جنہیں اقوام متحد نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا،پر پابندیاں عائد کی ہیں اورجن کے اثاثے ضبط اور بینک اکائونٹس منجمد کردیئے گئے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام کو امریکہ نے بھی سراہا ہے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ امتحان ہے کہ وہ FATF کی ان سخت شرائط پر کس حد تک عمل کرسکیں گے کیونکہ پاکستان FATF کی بلیک لسٹ میں شامل ہونا معاشی طور پر برداشت نہیں کرسکتا اور ایسی صورت میں دوست ممالک بھی ہماری مدد سے قاصر رہیں گے۔

تازہ ترین