• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23 برسوں تک بنگال کے ”صوبے دار“ رہنے والے جیوتی باسو کی تیسری برسی آگئی ہے۔ ان کی عمر 95 سال تھی، یہ وہ شخص تھا کہ اگر سی پی آئی (ایم) نے مخالفت نہ کی ہوتی تو یہ 1996ء میں بھارت کا وزیر اعظم بن گیا ہوتا۔ جیوتی باسو نے تا حیات اپنے وضع کردہ اصولوں کی حفاظت کی اور ان پر قائم رہے، آج برصغیر ایک عظیم کمیونسٹ قائد اور قدر آور سیاستدان سے محروم ہوگیا، وہ حقیقی کمیونسٹ اور ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے اور بنی نوع انسان کی اچھائی کے کاموں پر یقین رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ سماج کے ہر روشن خیال طبقہ میں محبوب و مقبول تھے۔
جیوتی باسو واحد سیاسی قائد تھے جن کا مغربی بنگال پر لگ بھگ نصف صدی تک اثر رہا۔ چیف منسٹر مغربی بنگال کی حیثیت سے جیوتی باسو کا دور سنہری دور رہا ہے، ان کی حکومت کے خلاف کرپشن کا کوئی ایک کیس نہیں ہوا۔ ان کی ساٹھ سالہ سیاسی زندگی صرف مغربی بنگال تک ہی محدود رہی تاہم انہیں پورے برصغیر میں بائیں بازو کی تحریک اور کمیونزم کا ایک رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ انتقال سے قبل باسو چند ماہ سے علیل تھے لیکن دماغی طور پر بے حد چاک و چوبند اور صحت مند تھے۔ یکم جنوری کو انہیں سینہ میں تکلیف اور انفیکشن کے بعد ہاسپٹل میں داخل کیا گیا، دو جنوری کو انہیں ہاسپٹل کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا، تاہم حالت بگڑتی چلی گئی تو انہیں 6 جنوری کو مصنوعی نظام تنفس پر رکھا گیا، وہ کولکتہ کے ”اے ایم آر آئی“ ہاسپٹل میں 16 دنوں تک زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کرتے رہے، اشتراکی جدوجہد کے برعکس اس جدوجہد میں وہ ناکام رہے اور 17 جنوری کو ان کا انتقال ہوگیا اور آسمان اشتراکیت کا یہ قطب ستارہ ڈوب گیا مگر اس کی روشنی برصغیر کی ہر ترقی پسند تحریک کے لئے راہ دکھانے والے تارے کی مانند آگے آگے رہے گی۔
جیوتی باسو 1977ء سے 2000ء تک مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے ان کی سیاسی زندگی میں اس وقت ایک بڑا موڑ آیا جب مرکز اور بائیں متحدہ محاذ نے بیک آواز ان سے وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کی قیادت کرنے کی درخواست کی۔ 1989ء میں انہوں نے وی پی سنگھ زیر قیادت متحدہ حکومت 1996ء میں ایچ ڈی دیوے گوڑا اور 1997ء میں اندرکمار گجرال کی زیر قیادت حکومتوں کو متحد کرنے میں اہم کردار اور رول ادا کیا۔ سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا نے ایک بار انٹرویو میں بتایا تھا کہ ”جب جیوتی باسو کو وزیر اعظم کے عہدہ کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی اور مجھ کو وزیر اعظم بنائے جانے کے وہ تنہا ذمہ دار ہیں۔“
کہتے ہیں ایک لال قلعہ مغربی بنگال میں بھی ہے، کولکتہ میں واقع سیکریٹریٹ کی عمارت جس کا نام ہے رائٹرز بلڈنگ۔ انگریزوں کے عہد کی اس پرشکوہ عمارت پر گذشتہ تیس برس سے سرخ پرچم لہرا رہا ہے۔ اس سرخ پرچم کو سلام کرنے والوں کی مقبولیت اور کمیونسٹ پارٹی کی عزت و تکریم میں اضافہ اور انتخابات میں اس کا عملی ثبوت یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ سیاست میں اصول پسندی، ترجیحات کا صحیح تعین، حقیقی مسائل اجاگر کرنے کی کوشش اور بدعنوانی و خوشامد پسندی سے باز رہنے کی عادت اس دورِ خرابات میں بھی کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کرتی ہے اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ بالخصوص سی پی ایم کتنی مضبوط اور جیوتی باسو کی پالیسیاں عوام میں کتنی مقبول ہیں۔ جیوتی باسو کی سربراہی میں مغربی بنگال نے ایسی ترقی کی ہے کہ اس کی نظیر بھارت کی کسی دوسری ریاست میں آسانی سے نہیں ملتی، اس نے زرعی اصلاحات سے عوام کا دل جیت لیا، یہی نہیں بلکہ امن و امان کی صورت حال، لاء اینڈ آرڈر، کاروبار، نیز صفعتوں کے لئے سازگار ماحول اور اس تاثر کے ذریعے کہ ہمارا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ سب جیوتی باسو کی پالیسیوں کی مرہون منت ہے۔ بدھا دیب اور اس سے جیوتی باسو کے زرعی شعبے میں انجام دیئے جانے والے کارہائے نمایاں کی وجہ سے دیہی علاقوں پر پارٹی کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے، حکومت نے پنچایتی سسٹم کو اس حد تک فروغ اور استحکام عطا کیا ہے کہ دیہی علاقوں میں اسے اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ باسو نے 23 برس تک ”بنگال“ کے ”صوبے دار“ (چیف منسٹر) کی حیثیت سے عوام کے بل بوتے پر حکمرانی کی تھی۔ ان کے دور اقتدار میں بائیں بازو کی حکومت نے دیہی بنگال کی حقیقی ترقی کے لئے زرعی اصلاحات کیس جس کے تحت لاکھوں بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں، باسو کے بعد آنے والے موجودہ چیف منسٹر بدھا دیب بھٹ اچاریہ نے شہری ترقی کا بیڑا اٹھایا جس کی وجہ سے آج کولکتہ کولکتہ نہیں رہ گیا۔اس کا ناک نقشہ تک بدل گیا ہے، شاپنگ مال، فلائی اوور، تین سٹارز سے لیکر چھ ستارہ ہوٹلوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے، سب سے بڑی بات غریب اور متوسط طبقے کے لئے بنگلور اور حیدرآباد کے بعد کولکتہ بھارت کا سب سے بڑا آئی ٹی مرکز بن کر ابھرا ہے اور یہ سب کچھ باسو کی پالیسیاں اور بائیں بازو کی دین ہے۔ ایک وقت تھا کہ کمیونٹیز کی ”جارحانہ“ کارروائیوں سے بدظن یا خوف زدہ ہو کر صنعت کار اور سرمایہ دار بنگال سے بھاگ گئے تھے مگر آج دنیا کے بڑے سرمایہ دار عظیم پریم جی، ٹاٹا اور امبانی جیسے بڑے صنعت کار اور غیر ملکی سرمایہ کار واپس بنگال آگئے ہیں۔ بدھادیب بھٹاچاریہ نے باسو کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے نہایت دانش مندی، تدبر، اور حالات کی نزاکت کو جان کر کمیونزم کو ایک نئی جہت دی تھی یہی وجہ ہے کہ نہ صرف گاؤں کے کسان، شہر کے مزدور اور جھگی جھونپڑوں میں رہنے والے کارکنوں نے کمیونسٹ پارٹی کو ووٹ دیا بلکہ بلند عمارتوں میں رہنے والے لکھ پتیوں مارواڑیوں نے بھی پارٹی کی حمایت کی۔ جیوتی باسو نے جذبات سے مسحور ہو کر کہا تھا ”مجھے تم پر فخر ہے۔“
جیوتی باسو پر کالم لکھتے ہوئے آج بھی ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک ریڈ انڈین نے اپنے علاقہ میں تبلیغ کرنے والے پادری سے پوچھا ”ایک بات بتاؤ اگر میں خدا اور گناہ کے بارے میں نہیں جانتا تو کیا میں جہنم میں جاؤں گا؟“ ”نہیں“ پادری نے کہا ”خدا اور گناہ سے انجان ہونے سے تم کسی بھی حالت میں دوزخ میں نہیں جا سکتے۔“
”پھر تم نے ان کے بارے میں مجھے کیوں بتایا؟ آخر کیا ضرورت تھی مجھے ان کے بارے میں بتانے کی۔“ باسو کے بارے میں نہ جاننے سے آپ دوزخ میں ہرگز نہیں جائیں گے جنت بھی آپ پر حرام نہ ہوگی ہاں مگر آپ لفظ حق گو، جدوجہد، بااصول، رول ماڈل، عوامی رہنما اور بہترین منتظم کے مفہوم سے محروم رہیں گے۔
یہ وہ تصور ہے جو جیوتی باسو سے ایک دوبار کی ملاقات سے میرے ذہن میں بنتی ہے۔
تازہ ترین