• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل خون کے آنسو رو رہا تھا، کوئٹہ میں قتل و غارت کے مناظر ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ یہ وہ شہر ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے14اگست 1948ء کو پاکستان کا پہلا یوم آزادی منایا تھا لیکن آج اس شہر پر دہشت کاراج تھا۔ میں کچھ باخبر لوگوں سے پوچھ رہا تھا کہ جیسے جیسے الیکشن قریب آرہا ہے کوئٹہ اور کراچی میں خونریزی کیوں بڑھ رہی ہے؟ اسلام آباد پر ایک غیر ملکی شہری نے ہلہ بولنے کا اعلان کیوں کردیا ہے؟ باخبر لوگ جواب میں کہہ رہے تھے کہ پاکستان ایک انٹرنیشنل ڈرامے کے تھیٹر میں تبدیل ہورہا ہے ۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو سبق سکھانا ہے۔ ایران کو سبق سکھانے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی مدد چاہئے لیکن پاکستان میں کوئی بھی سیاسی حکومت ایران کے خلاف امریکی ڈرامے کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ صرف ایک غیر سیاسی حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے تیار ہوگی اس لئے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور کچھ عرصہ کے لئے ایک غیر سیاسی حکومت پاکستان کا انتظام سنبھال لے۔
میرا خیال تھا کہ آج کا پاکستان جمہوریت کے بغیر نہیں چل سکتا اور اگر پاکستان کا وجود بکھر گیا تو اس خطے میں امریکہ کے لئے مزید مسائل پیدا ہوجائیں گے لیکن امریکیوں کے ساتھ آئے دن مذاکرات کرنے والے باخبر لیکن بے اختیار لوگوں نے مجھے کہا کہ ڈیوڈ سینگر کی کتاب کنفرنٹ اینڈ کینسلConfront and conceal پڑھ لو تو ایران کے خلاف امریکی ایجنڈا سمجھ میں آجائے گا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کار بم دھماکوں کے ذریعے ایران میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت کار اس تاثر کی نفی میں مصروف تھے کہ طاہر القادری کا لانگ مارچ کسی مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس دوران ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سیاسی ڈرون حملے کا اعلان کردیا۔ ڈرون حملہ امریکیوں کی ایجاد ہے اور امریکیوں کی مرضی سے ہوتا ہے لہٰذا ہم انتظار کرنے لگے کہ ڈرون حملہ کب اور کس پر ہوتا ہے؟10جنوری کی شام الطاف حسین نے لندن سے بیٹھ کر ٹیلی فون پر ایک طویل خطاب کیا جو پاکستان کے اکثرٹی وی چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ اس خطاب میں الطاف حسین نے اپنی دہری شہریت کا جواز پیش کرنے کیلئے بانی پاکستان قائد اعظم کے ایک پرانے پاسپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی برطانوی شہری تھے۔ الطاف حسین نے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم کے حلف کی عبارت پڑھ کر کہا کہ اگر ہم نے برطانوی حکومت سے وفاداری کا حلف اٹھایا تو قائد اعظم نے بھی تو اٹھایا تھا۔ اس خطاب میں الطاف حسین پنجابی میں بڑھکیں مارتے رہے اور گانے بھی گاتے رہے۔ انہوں نے کہا پاکستان14اگست کو نہیں15اگست کو معرض وجود میں آیا تھا۔ الطاف حسین نے دہری شہریت کے معاملے پر اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے قائد اعظم  کو انگریزوں کا وفادار بنادیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں قائد اعظم کے اس کردار کا ذکرتک نہ کیا جس کے ذریعہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی اور ان کے ہاتھوں بکنے سے انکارکردیا۔ الطاف حسین کی اس تقریر پر مجھے بہت تکلیف ہوئی لیکن اس تقریر پرعام پاکستانیوں نے کراچی سے کوئٹہ اور پشاور سے لاہور تک جس ردعمل کا اظہار کیا وہ خوف اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن تھا۔ ہم نے دیکھا کہ پختون ،سندھی اور بلوچ قوم پرست الطاف حسین کی مذمت کررہے تھے۔ خود ایم کیو ا یم کے کئی حامیوں نے الطاف حسین کی تقریر پر تاسف کااظہار کیا۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ الطاف حسین نے ایک تاریخی حقیقت کے ذریعہ محض یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جس طرح قائد اعظم نے مجبوری میں انگریزیوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہم نے بھی مجبوری میں دہری شہریت حاصل کی۔ دہری شہریت کوئی جرم نہیں لیکن دہری شہریت کے دفاع میں الطاف حسین نے تاریخی حقائق کو مسخ کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قائد اعظم نے کبھی دہری شہریت حاصل نہیں کی تھی۔ وہ ایک غلام ہندوستان کے شہری تھے اس لئے ان کے پاسپورٹ پر برٹش انڈیا لکھا گیا۔ وہ کبھی جان بچانے کے لئے اپنے وطن سے نہیں بھاگے تھے۔ قائد اعظم کے قریبی ساتھی سید شمس الحسن نے ا پنی کتاب میں لکھا ہے کہ قائد اعظم مسلمانوں کے اندرونی اختلافات سے دل برداشتہ ہو کر اکتوبر1930ء میں لندن چلے گئے ۔ ان کی عدم موجودگی میں سر محمد شفیع کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا لیکن انہیں وائسرائے نے اپنی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنالیا۔ پھر سر ظفر اللہ خان مسلم لیگ کے صدر بنے تو وائسرائے نے انہیں بھی ایگزیکٹو کونسل کارکن بنا کرمسلم لیگ سے چھین لیا، پھر علامہ اقبال لندن گئے اور قائد اعظم کو دسمبر1933ء میں واپس لائے، اس جلا وطنی میں قائد اعظم  نے برطانوی شہریت حاصل نہیں کی۔ قائد اعظم نے ابتداء میں کانگریس کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد کی۔ ان کی سامراج دشمنی کا یہ عالم تھاکہ1919ء میں رولٹ بل پیش ہوا تو قائد اعظم امپریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ معروف بھارتی محقق اے جی نورانی نے”جناح اینڈ تلک“ کے نام سے اپنی کتاب میں آزادی پسند ہندو لیڈر گنگا دھر تلک کے ساتھ قائد اعظم کی دوستی کی تفصیل لکھی ہے۔ تلک پر بغاوت کے کئی مقدمے قائم ہوئے اور قائد اعظم نے ہمیشہ تلک کی مفت وکالت کی۔ اے جی نورانی نے انگریزوں کے ایک اور دشمن بھگت سنگھ پر اپنی کتاب میں 12اور14ستمبر 1929ء کو مرکزی اسمبلی میں قائد ا عظم کی دو تقاریر کو بھی شامل کیاہے، بھگت سنگھ نے اسمبلی پر بم حملہ کیا تھا لیکن قائد اعظم نے دو دن تک اس کے حق میں تقریر کی اور اسے سیاسی قیدی قرار دیا۔کانگریس کے نام نہاد سیکولر لیڈروں نے ہمیشہ انگریز سرکارکے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں اور اسی ملی بھگت کے خلاف قائد اعظم نے غازی علم دین شہید کی بھی حمایت کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کو احساس ہوا کہ کانگریس کا سیکولر ازم ایک دھوکہ ہے لہٰذا وہ مسلم لیگ میں آگئے لیکن ان کی سامراج دشمنی کا یہ عالم تھا کہ 1935ء میں انگریزوں نے خان عبدالغفار خان کے خدائی خدمت گاروں پر پابندیاں لگائیں تو قائد اعظم نے اسمبلی میں خدائی خدمت گاروں کے حق میں تقریر کردی۔ شریف فاروق نے قائد اعظم پر اپنی تحقیقی کتاب میں بتایا ہے کہ قائد اعظم  نے ڈاکٹرخان صاحب، اے کے فضل حق اور مولانا شوکت علی کے ساتھ مل کر خدائی خدمت گاروں کے حق میں قرارداد منظور کرائی۔ 1933ء سے1946ء تک قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے فلسطین کے حق میں18قراردادیں منظور کیں جس پر مفتی اعظم فلسطین سید محمد امین الحینی نے 12 اکتوبر 1945ء کو قائد اعظم کو اپنے ہاتھ سے شکریے کا ایک طویل خط لکھا۔ الطاف حسین سے گزارش ہے کہ مشہور کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کے مصنفین لیری کولنز اور ڈومینک لپائرے کی کتاب”ماؤنٹ بیٹن ایڈدی پارٹیشن آف انڈیا“ پڑھ لیں۔ اس کتاب میں ماؤنٹ بیٹن کے انٹرویوز شامل ہیں اور اس نے قائد اعظم پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس کو پتہ ہوتا کہ قائد اعظم اتنے بیمار ہیں تو وہ ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ ماؤنٹ بیٹن کی قائد اعظم سے نفرت کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھارت اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتا تھا لیکن قائد اعظم کو قبول نہ تھا۔ بھارت نے ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل قبول کرلیا پاکستان نے نہیں کیا۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور محقق ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے”جناح پیپرز“ کی جلد سوم میں بتایا ہے کہ سی آئی ڈی پنجاب کا ڈی آئی جی ولیم جنکن پاکستان میں غداروں کا ایک نیٹ ورک تیار کررہا تھا۔ سی آئی ڈی کے ایک مسلمان افسر دبیر حسین زیدی نے ممتاز شاہنواز کے ذریعہ اس منصوبے کی دستاویزات قائد اعظم تک پہنچا دیں جس کے بعد قائد اعظم ماؤنٹ بیٹن سے خبردار ہوگئے۔
ماؤنٹ بیٹن نے5جولائی 1947ء کو قائد اعظم سے کہا کہ پاکستان اپنے پرچم میں یونین جیک کا نشان شامل کرلے ، قائد اعظم نے12جولائی 1947ء کو انکار کردیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ آپ گورنر جنرل ہاؤس پر پاکستان کے پرچم کے ساتھ برطانیہ کا پرچم لہرائیں ،قائد اعظم نے انکار کردیا۔ بات بات پر انکار کرنے والے قائد اعظم پر انگریزوں سے وفاداری کا الزام دراصل ان کی شخصیت پر ناکام ڈرون حملہ ہے۔ قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل جو حلف اٹھایا تھا اس کی اصل عبارت الطاف حسین گول کرگئے۔ اصل عبارت یہ تھی کہ میری سچی وفاداری پاکستان کے آئین سے ہوگی لیکن بطور گورنر جنرل میں برطانوی بادشاہ کا وفادار رہوں گا۔ قیوم نظامی کی کتاب”قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل “ میں یہ حلف اصل الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی کتاب”تقسیم ہند افسانہ اور حقیقت“ میں بتایا ہے کہ15اگست جاپان کے خلاف برطانیہ کی فتح کا دن تھا اس لئے قائد اعظم نے 15اگست کو یوم آزادی کے طور پر تسلیم نہ کیا ، بھارت نے تسلیم کرلیا۔ الطاف حسین نے یہ سب حقائق کیوں بیان نہیں کئے؟ بہرحال الطاف حسین کی تقریر پر نئی نسل نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ حوصلہ افزاء ہے۔ ہمیں آج کے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لئے سیاسی ڈرامے بازوں اور دہشتگردوں کے خلاف متحد ہونا چاہئے۔ قائد اعظم نے سچائی کی طاقت سے پاکستان بنایا آج ہمیں سچائی کی طاقت سے پاکستان بچانا ہے۔
تازہ ترین