• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈسے قرضے کے حصول کے سلسلے میں گزشتہ کئی ماہ سے جوکوششیں کررہی تھی وہ بالآخررنگ لائی ہیںاورواشنگٹن میں آئی ایم ایف حکام سےوزیرخزانہ اسد عمر کے تفصیلی مذاکرات کے بعدپاکستان کےلئے6سے8ارب ڈالرکے قرضے زرمبادلہ کی شرح،مالیاتی خسارے،بجلی اورتوانائی کے دوسرے ذرائع کے نرخوں،سرکاری اداروں کی بحالی اوروفاقی بجٹ کے حوالے سے ایک جامع بیل آؤٹ پیکج طےپاگیاہے۔اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے کوحتمی اوردستاویزی شکل دے دی گئی ہے جبکہ تکنیکی تفصیلات طے کرنے کےلئے عالمی ادارے کاایک وفد اسی ماہ کے آخری ہفتے میں پاکستان کادورہ کرے گا۔وزیرخزانہ نے امریکہ سے واپسی پرپیرکو وزارت خزانہ کی قائمہ کمیٹی اوربعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے فوراًبعدملٹی لیٹرل اداروں سے رکے ہوئے فنڈ بھی ملنا شروع ہوجائیں گےاورآئی ایم ایف کے علاوہ ورلڈ بنک سے7سے8ارب ڈالراوریشیائی ترقیاتی بنک سے6ارب ڈالر ملیں گے۔اس طرح آئندہ تین سال میںپاکستان کومجموعی طورپر22ارب ڈالر ملنے کاامکان ہے۔اس سے زرمبادلہ کے ذخائرپر2016سے جاری دباؤکم ہوگا،انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کوہماری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پراعتراض ہے نہ اس نے دفاعی بجٹ میں کمی سے متعلق کوئی شرط عائد کی ہے۔ان کاکہناتھا کہ بجلی کی قیمت میں اضافےکی کوئی تجویزنہیں۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ کچھ چیزیں مہنگی ہوں گی لیکن عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ اب ہم معاشی بحران سے نکل آئے ہیں اوراستحکام کے مرحلے میں ہیں۔عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے لئے حالات سازگار ہیں۔اصلاحات پرکام ہورہاہے اورحکومت درست سمت میں جارہی ہے۔شرح سود9سےکم ہوکر7فیصد پرآگئی ہےاورفنانشل مانیٹرنگ نظام میں پہلے سےبہتری آئی ہے ۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کاوفد مئی کے تیسرے ہفتے میں پاکستان آکرخودصورت حال کامعائنہ کرے گا۔وزیرخزانہ نے حکومت کایہ عمومی موقف دہرایا کہ سابقہ حکومت معیشت کوجس حالت میں چھوڑ کرگئی اس کی بہتری اوربحالی کے فیصلوں سے عوام متاثرہوئے ہیں۔اقتصادی مبصرین سوال کرتے ہیں کہ حکومت کب تک اس بیانیےکے پیچھے چھپے گی اوراس کے اپنے معاشی اقدامات کب عوام کوریلیف مہیا کریں گے؟اسدعمرنے یہ توبتایاکہ آئی ایم ایف اوردوسرے ادارے پاکستان کو22ارب ڈالرقرضے دیں گےلیکن ان قرضوں کی شرائط کھل کرنہیں بتائیں،صرف یہ کہا کہ کچھ چیزیں مہنگی ہوں گی لیکن عام آدمی متاثرنہیں ہوگا۔سوال یہ ہے کہ جب چیزیں مہنگی ہوں گی تو عام آدمی ان کے اثرات سے کیسے بچے گا؟پہلے ہی اشیائے خوردنی اورادویات کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیںاورغریب اورمتوسط طبقے کی قوت خریددم توڑرہی ہے اصلاحات کے نام پرٹیکسوں میں اضافہ اور دوسرے اقدامات کئے جائیں گےتواس کااثرتوبالآخر عام صارفین پرہی پڑناہے۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق ملک کے سرکاری قرضوںمیں بھی اضافے کاسلسلہ جاری ہے جن کاحجم رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں10فیصد اضافے کے ساتھ ساڑھے27کھرب روپے تک پہنچ گیاہےملکی وبیرونی قرضوں کا بہاؤتقریباًدوگناہوگیا ہےجس کی بڑی وجہ روپےکی قدر میں ہونے والی مسلسل کمی ہے۔رئیل اسٹیٹ ویلیو ایشن نے پراپرٹی بزنس کوبھاری نقصان پہنچایاہے۔ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسٹاک ایکسچینج گررہی ہے۔ایسے میں معاشی استحکام کی منزل ابھی توقع سے زیادہ دور دکھائی دیتی ہے۔عالمی اداروں کے علاوہ حکومت دوست ملکوں سے بھی قرضے لے رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی قرضے ملکی معیشت کےلئے ناگزیر ہیں مگر فی الحال عوام مہنگائی کے جس طوفان کامقابلہ کررہے ہیں اس کی شدت میں کمی لانے کےلئے حکومت کوسنجیدہ اورموثراقدامات کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین