• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستان کیا، پورے برصغیر کی معاشی ترقی کے بارے میں مثبت خیالات کا حامل ہوں اور اس کا بار بار اظہار کرتا رہا ہوں۔ میں ان لوگوں کو سر سے غلط سمجھتا ہوں، جو ہر طرف شور مچاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے ستّر سال میں کُچھ تبدیل نہیں ہوا اور عوام کی حالت میں بہتری نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ستّر کیا چالیس سالوں میں سب کُچھ تبدیل ہو گیا ہے اور عوام کی حالت میں کئی سو گنا بہتری آئی ہے۔ جن گھروں میں سائیکل خریدنے کی سکت نہیں تھی اب ان کے پاس کاریں ہیں، دیہات میں کسی کے پاؤں میں جوتا نہیں ہوتا تھا لیکن اب ہے۔ یہ سب کچھ مشینی دور کے شروع ہونے اور نئے آلات پیداوار کے استعمال کرنے سے شروع ہوا۔ میں تو یہاں تک کہنے کے لئے تیار ہوں کہ معاشی تبدیلی کا اس بات سے بھی کوئی تعلق نہیں کہ ملک میں جمہوریت تھی یا فوجی ڈکٹیٹر شپ۔ ظاہر بات ہے کہ میرے جمہوریت پسند دوست اس طرح کے بیان سے بہت دل آزردہ ہوں گے اور میں ان کی دلجوئی کیلئے اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید طرز حکومت سے ترقی کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے اور شاید ہندوستان اور بنگلہ دیش طرز حکومت کی وجہ سے پاکستان سے آگے نکل رہے ہیں۔ لیکن معاشی ترقی کا برصغیر کے ہر حصے میں پائے جانے سے یہ دعوی اپنی جگہ درست رہے گا کہ تبدیلی کی بنیادی وجہ نئی ٹیکنالوجی اور آلات پیداوار ہیں۔

بات یہ ہے کہ سولہویں اور سترھویں صدی کے مغلیہ دور میں ہندوستان تیزی سے ترقی کر کے دنیا کا امیر ترین خطہ بن گیا تھا: اس سے پہلے چین اول نمبر پر تھا اور ہندوستان دوسرے درجے پر آتا تھا۔ یورپ اور برطانیہ برصغیر سے مصنوعات در آمد کرتے تھے اور اس کی ادائیگی صنعتی اشیاء سے نہیں سونے اور چاندی سے کرتے تھے کیونکہ وہ تجارتی سطح کے لئے زیادہ اشیاء بنانے کے اہل ہی نہ تھے۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی کے پنجابی ادب میں بیان کی گئی مصنوعات کی فہرست مقام حیرت ہے۔ مغربی مفکرین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ برصغیر نیم صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا جو کہ انگریز کے آنے کے بعد زمانہ قدیم کی طرف لوٹ گیا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے تک آتے آتے ہندوستان معاشی ترقی کے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کسی نئی ٹیکنالوجی کی مرہون منت تھی اور اُس میں مغل انتظامیہ کا کوئی کردار تھا بھی یا نہیں کیونکہ تمام تر جنگ وجدل اور افراتفری کے باوجود اورنگ زیب کی موت کے بعد 1750تک برصغیر کی معاشی برتری اپنی جگہ پر قائم رہی لیکن اب واپس مُڑ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تب تک ملک کے سیاسی اور سماجی نظام کو گُھن لگ چکا تھا۔ اہم ترین حقیقت تو یہ ہے کہ تیز تر معاشی ترقی اور صنعتی سیکٹر کے وسیع ہونے کے بعد علاقے کو زیادہ روشن خیال نظریاتی ڈھانچے کی ضرورت تھی جو کہ معرض وجود میں نہ آئی بلکہ اس کے اُلٹ یہ ہوا کہ کٹر پسند مذہبی قدامت پرستی غالب آگئی۔ اگر ماضی میں معاشی ترقی کے ردعمل میں مذہبی قدامت پرستی غالب آگئی تھی اور اُس وقت نہ دکھائی دینے والا زوال شروع ہو چکا تھا تو کیا آج کے نریندر مودی اور پاکستانی ریاست کی مذہب پرستی اُسی تاریخی رجحان کو دُہرا رہی ہے اور ترقی کے شور وغل میں ہمیں تنزل کے آثار نظر نہیں آرہے؟ بر سبیل تذکرہ اُس زمانے میں نئے نظریاتی ڈھانچے کی تشکیل صرف مسلمان حکمرانوں اور اشرافیہ کی ہی ذمہ داری نہ تھی بلکہ یہ ہندوئوں کی بھی تھی، جو عملی طور پر معیشت اور مالی اداروں کے بلا شرکت غیرے مالک تھے: پنجاب میں بھی تمام شہروں اور نوکر شاہی پر ہندوئوں کا غلبہ تھا۔ غرضیکہ نئے نظریاتی ڈھانچے کی تشکیل میں ناکامی سارے خطے کی اشرافیہ کی فکری کوتاہی تھی۔ اس سلسلے میں صرف سکھ مت کا ابھار استثنیٰ ہے: یہی وجہ ہے کہ نئے نظریاتی ڈھانچے کو اپناتے ہوئے بہت ہی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود سکھوں نے ایک پورے علاقے میں اپنی سلطنت قائم کر لی۔

مغلیہ دور کی بےمثال معاشی ترقی کے دور میں ہی پورے نظام کو کئی طرح کی بیماریاں لگ چکی تھیں، جنہوں نے ’آخر کام تمام کیا‘۔ زوال کا ایک بہت بڑا باعث نئی معاشی ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم کا نہ ہونا تھا۔ ذات پات اور مخصوص طبقاتی ڈھانچے کی وجہ سے عام انسانوں کو ترقی کے مواقع میسر نہ آئے۔ اسی لئے جب شمال سے آنے والے حملہ آوروں نے لوٹ کھسوٹ سے نظام کو تہہ و بالا کرنا شروع کیا یا مقامی بغاوتوں کے باعث شیرازہ بکھرنے لگا تو عوام کو قائم انتظامی ڈھانچے کا دفاع کرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مغلیہ سلطنت کے اندر تخت نشینی اور دوسری جنگوں کی وجہ سے معاشرے کے زیادہ تر وسائل عسکری مہمات پر خرچ ہونے لگے۔ مشہور تاریخ دان پال کینیڈی نے دنیا کی سب بڑی طاقتوں کے اسباب کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ جب انتظامی اور عسکری اخراجات سماجی سیکٹر پر ہونے والے خرچ سے بڑھ جائیں تو زوال کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

سولہویں سترھویں صدی کی طرح آج کی ترقی کے نتیجے میں بھی مذہبی قدامت پرستی غالب آئی ہے اور نیا نظریاتی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ نئی دولت کی تقسیم بھی ایک چھوٹے سے طبقے میں مرکوز ہو رہی ہے، حکومتوں پر سیاسی قبضے کے سلسلے میں بھی مغلیہ سلطنت کی تخت نشینی پر ہونے والی جنگوں کا منظر اپنے آپ کو دہراتا ہوا نظر آرہا ہے اور غیر پیداواری امور پر اخراجات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ کیا ہمارے نہ دکھائی دینے والے زوال کی صدی کا آغاز ہو چکا ہے؟ پاکستان کی گرتی ہوئی شرح نمو تو یہی کچھ بتا رہی ہے اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ ہندوستان میں دس پندرہ سال کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو پاکستان میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں صرف یہ مقولہ حوصلہ افزا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی نہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہو اور ہم ایسے دور میں داخل ہو چکے ہوں جس سے پھسل کر ہم واپس نہ دھکیل دئیے جائیں!

تازہ ترین