وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں دوبارہ برسر اقتدار آکر بھارتی آئین کی دفعات 35اے اور 370منسوخ کرنےکا وعدہ کرکے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے جو ان کے پیشرو شدید ترین خواہش کے باوجود عشروں کی سازشوں، کشمیری عوام پر بہیمانہ مظالم اور پاکستان کے ساتھ خونی جنگوں کے باوجود نہ کر سکے۔ مودی ان دفعات کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے اور ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کو بھارت کا دائمی غلام بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور تقسیم کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو بری طرح کوستے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور دوسری مسلم ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر کے مسئلے کو بھی ’’بہتر طریقے سے‘‘ نمٹا دیتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ وزیراعظم مودی کو بعض مبصرین ہندوئوں کے ’’ہیروز‘‘ چانکیا اور شیوا جی کا جانشین قرار دیتے ہیں جو مکر و فریب، دھوکہ دہی اور چالبازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ اور ’’ہندو توا‘‘ مودی کا سیاسی فلسفہ حیات ہے جس کا مطلب ہے بھارت صرف ہندوئوں کے لئے، یعنی مسلمانوں کو یہاں رہنا ہے تو ہندو بن جائیں وگرنہ پاکستان یا کہیں اور چلے جائیں۔ ان کے بارے میں اتنا جاننے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دفعات 35اے اور 370سے ان کو کیا پریشانی ہے، جس سچ کو بھارتی حکمراں ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان دفعات کی رو سے مقبوضہ کشمیر قطعی طور پر بھارت کا حصہ یا ’’اٹوٹ انگ‘‘ نہیں بنتا۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ 1947میں جب مہاراجہ ہری سنگھ کشمیری مجاہدین سے لڑنے کے لئے فوج مانگنے دہلی گیا تو 27اکتوبر کو پنڈت نہرو، ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کے دستخطوں سے ایک معاہدہ ہوا جس میں کہا گیا کہ بھارتی فوج عارضی طور پر بھیجی جائے گی۔ جب امن قائم ہو جائے گا تو کشمیری عوام کو حق ہو گا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں۔ امن تو خیر نہ ہو سکا لیکن جب بھارتی آئین بنا تو اس معاہدے پر مبنی دو دفعات اس میں شامل کر دی گئیں۔ دفعہ 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کا بھارت سےنام نہاد الحاق عارضی ہے، مستقل نہیں۔ بھارت کو صرف خارجہ امور، دفاع اور خزانے کی نگرانی دی گئی اور طے کیا گیا کہ ریاست باقی تمام امور میں مکمل خود مختار ہوگی۔ اس کا اپنا آئین، اپنی اسمبلی، اپنا جھنڈا، اپنا قومی ترانہ، اپنا صدر اور اپنا وزیراعظم ہوگا۔ یہ بھی طے پایا کہ بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی قانون مقبوضہ کشمیر پر لاگو نہیں ہوگا سوائے اس کے جس کی توثیق کشمیر اسمبلی کر دے۔ بعد میں بھارت جس طرح سلامتی کونسل کی قراردادوں سے منحرف ہو گیا اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختاری کے متعلق بھی اس کی نیت خراب ہو گئی۔ دہلی کی حکومت نے پہلے شیخ عبداللہ، پھر بخشی غلام محمد سے جان چھڑائی اور غلام محمد صادق کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال کر انہیں، وزیراعظم کے بجائے وزیراعلیٰ بنایا اور صدرِ ریاست کی جگہ گورنر کا عہدہ متعارف کرا دیا۔ جی ایم صادق نے بھارتی جبر کے تحت ایک قرارداد کے ذریعے اس ’’تبدیلی‘‘ کی سرینگر اسمبلی سے منظوری تو لے لی مگر کشمیری عوام کے تیور دیکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو اسے اپنے آئین کا حصہ بنانے کی جرأت نہ ہوئی۔ رسمی طور پر اس قرارداد کے نفاذ کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا جس کی کٹھ پتلی اسمبلی نے منظوری دی۔ اس طرح بھارتی آئین کی دفعہ 370اپنی اصلی شکل میں برقرار رہی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئین سے یہ دفعہ نکالی گئی تو بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا نام نہاد الحاق خود بخود ختم ہو جائے گا۔
دفعہ 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ’’خصوصی‘‘ یا خودمختار حیثیت آئینی طور پر تسلیم کی گئی ہے تو دفعہ 35اے کی رو سے کشمیریوں کے شہری حقوق اور شناخت کو تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ دفعہ اس معاہدے پر مبنی ہے جو انگریزوں نے 74741مربع میل کی اس طویل و عریض ہمالیائی ریاست کو فروخت کرتے وقت گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ساتھ کیا تھا۔ یہ معاہدہ 26جنوری 1950ء کو دفعہ 35اے کی صورت میں بھارتی آئین میں درج کر دیا گیا۔ اس کی رو سے کوئی غیر ملکی یا باہر سے آنے والا شخص جموں و کشمیر کی شہریت حاصل نہیں کر سکتا، یہاں جائیداد خرید سکتا ہے نہ آباد ہو سکتا ہے۔ ملازمت بھی نہیں کر سکتا اور الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔ یہ سارے حقوق اور مراعات صرف جموں، وادی کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان کے پشتینی باشندوں کا استحقاق ہیں۔ یہاں بھارت یا کہیں اور سے آنے والے اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر سکتے جو صرف پشتینی باشندوں کو جاری کئے جاتے ہیں۔ دفعات 370اور 35اے آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ گلاب سنگھ ڈوگرہ کو جموں و کشمیر کی فروخت سے قبل یہاں باہر سے جو قبضہ گر حکمراں آئے، ان کے ساتھ ایرانی، افغان، سکھ، ہندوستانی اور وسط ایشیا کے لوگ بھی آتے رہے اور یہاں آباد بھی ہوتے رہے۔ اس معاہدے کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا لیکن بھارتی آئین میں یہ دفعات درج ہونے کے باوجود دہلی کے حکمرانوں نے جب دیکھا کہ کشمیری حقِ خودارادیت کے سوا مسئلہ کشمیر کے کسی حل پر آمادہ نہیں تو انہوں نے ایک تو ریاست پر غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کے لئے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے منحرف ہونے کے علاوہ تقریباً 8لاکھ فوج وہاں لا کھڑی کی۔ جو 1947ء سے اب تک 5لاکھ سے زائد مسلمانوں کو تہ تیغ کر چکی ہے، دوسرا بھارت سے بڑی تعداد میں ہندوئوں کو لاکر یہاں بسانا شروع کر دیا تاکہ ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔ گویا بھارتی حکمرانوں نے اپنے ہی آئین کی دھجیاں اڑا دیں لیکن وہ کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے ہٹا سکے نہ ان کی اکثریت ختم کر سکے۔ بی جے پی نے دفعہ 370منسوخ کرنے کا جو وعدہ انتخابی منشور میں شامل کیا ہے، حریت کانفرنس کے علاوہ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بھی اس کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ سیّد علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق تو بھارت کو مانتے ہیں نہ بھارتی آئین کو مگر سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی متنبہ کیا ہے کہ اس دفعہ کو منسوخ کرنے سے بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کا نام نہاد عارضی الحاق بھی ختم ہو جائے گا اور کشمیریوں کی آزادی کی منزل اور قریب آ جائے گی۔