• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا کہ میں اُردو ڈائجسٹ کے لئے تحقیقی مضمون لکھنے کے لئے منگلا میں محکمۂ انہار کا ریسٹ ہاؤس ریزرو کرا لیا کرتا اور دو چار دن قیام بھی کرتا۔ وہ بڑی پُرسکون اور بہت ہری بھری جگہ تھی۔ ایسے ماحول میں ذہن کے دریچے کھلتے جاتے ہیں اور تازہ خیالات کی آبشار بہنے لگتی ہے۔ مجھے دور دور تک پھیلے ہوئے قدرتی مناظر کا سحر اپنی گرفت میں لے لیتا اور ریسٹ ہاؤس کے پہلو میں بہتی ہوئی نہر کا ترنم سازِ دل پر مضراب کا کام کرتا۔ مجھے وہ رات ہمیشہ یاد رہتی ہے جب کھانے کے بعد ٹہلنے کے لئے بستی کے اندر سڑک پر آ گیا، جہاں چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ بہت دور سے بجلی کے ایک بلب کی ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ اس گھپ اندھیرے میں جگنو ستاروں کی طرح چمک رہے تھے اور آس پاس کی فضا کو روشن رکھے ہوئے تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ روشنی کی ایک ننھی سی کرن اندھیروں کا سینہ چیر سکتی ہے اور تاریکی جس قدر گہری ہو گی، ننھی کرن اسی قدر تابندہ، روشن اور تابناک ہو گی۔ تب سے میرے تحت الشعور میں یہ احساس جاگزیں ہو گیا کہ اندھیروں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے یقین اور اُمید کی کرن روشن رکھنی چاہئے کہ وہ دبیز اندھیروں میں اپنا راستہ بنا لیتی اور اُن کا سحر توڑ دیتی ہے۔

ہم جو پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے پیروکار ہیں اور اللہ کی آخری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، کبھی اندھیروں میں بھٹک نہیں سکتے کہ ہمارے سینوں میں ایمان کی شمع روشن ہے۔ قرآنِ حکیم کا پوری بنی نوع انسانی کے لئے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مایوسی گناہِ عظیم ہے۔ ان واضح تعلیمات کی روشنی میں ہمارے ہاں نااُمیدی اور مایوسی کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان جب چاروں طرف سے مشکلات میں گھرے ہوئے تھے، انگریز اور برہمنوں کے گٹھ جوڑ نے ایک آبرو مندانہ زندگی کے امکانات بجھا دیے تھے، مگر مسلمانوں کے سینے اچھی امیدوں اور آرزوؤں سے منور اور شاداب رہے اور آزادی کا شعلہ ان کے دلوں میں سلگتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سلطنتِ عثمانیہ شکست و ریخت سے دوچار تھی جو عالمِ اسلام کی وحدت کی علامت رہی تھی۔ اس کی شکست و ریخت سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے اور ایک درخشندہ مستقبل کے چراغ مدہم پڑ رہے تھے۔ اِس یاس انگیز ماحول میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے غم کی ایک ایمان افروز تعبیر پیش کی ؎

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

سحر کی اُمید مسلمانوں کے سینوں میں کبھی دم نہیں توڑتی ہے، بلکہ اُنہیں تسخیر کائنات کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اِن دنوں پاکستان کے احوال بڑی دل شکستگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ درمیانہ طبقہ جو وطن کی اصل طاقت ہے، کے اوقات بڑے تلخ ہیں۔ ایک شاعر نے انہی کے بارے میں کہا ہے ؎

کون اِس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے

فرماں رواؤں کے طور طریق بھی قابلِ ستائش نہیں۔ حکمرانی بچوں کا کھیل بن گئی ہے۔ ایک صوبے کے پانچ سات سے کم وزرائے اعلیٰ نہیں اور مرکز کی سطح پر سخت کھینچا تانی جاری ہے۔ معیشت قابو میں نہیں آ رہی اور حکومت کا ہر قدم اُلٹا پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ بلائیں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ مجھے تو ان اندھیروں میں بھی اُجالے دکھائی دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے تھر پاور ہاؤس پروجیکٹ کا افتتاح کیا، تو اُمیدوں کا ایک چمن کھل اُٹھا، پاکستان کے طول و عرض میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پہلے مرحلے میں 660میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گئی ہے جو تھر کے کوئلے سے تیار ہوئی ہے۔ پورا منصوبہ 5,000میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ ایک تخمینے کے مطابق اس علاقے میں کوئلے کے ذخائر اپنی مالیت کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران کے ذخائر سے زیادہ ہیں اور نصف صدی تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ علاقہ مسٹر بھٹو نے 1973میں بھارت سے واپس لیا تھا، جس پر اس نے 1971کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ تھرکول پاور پروجیکٹ کی بنیاد محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1996میں رکھی تھی۔ یہ امر بھی نشاط انگیز ہے کہ وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 2012میں پٹرولیم پالیسی وضع کی تھی، جس نے غیر ملکی کمپنیوں کو گیس اور تیل کی دریافت کے لئے سمندر میں ڈرلنگ کا اختیار دیا تھا۔ اس پروجیکٹ سے بھی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں حکومتِ سندھ کے علاوہ مقامی صنعت کاروں اور چین کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ یہ دراصل اٹھارہویں ترمیم ہی کا کرشمہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ مراد علی شاہ اور جام کمال بڑے بڑے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ہم نے اسی ہفتے ایک عظیم ذہنی انقلاب اُبھرتے دیکھا ہے۔ پاکستان کی سب سے پرانی درس گاہ، پنجاب یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے انتخابات ہوئے اور یونیورسٹی کے اساتذہ نے بڑی اکثریت کے ساتھ ایک پینل کے تیرہ میں سے بارہ ارکان منتخب کئے، جو کسی طرح معجزے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ انتخابات پُرامن ہوئے اور باہمی احترام کا خاص خیال رکھا گیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے کامل غیر جانبداری سے کام لیا، کیونکہ اُنہیں تمام اساتذہ یکساں عزیز ہیں اور وہ اُن کی فلاح و بہبود کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ شعبۂ اقتصادیات کے چیئرمین ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری جو اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں، صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انقلاب آفریں حقیقت یہ ہے کہ انتخابی مہم کی روح یہ تھی کہ اساتذہ کو چھوٹے چھوٹے ذاتی معاملات میں الجھے رہنے کے بجائے قومی پالیسی سازی میں اہم کردار اَدا کرنا چاہئے اور مثبت سوچ کے ساتھ یونیورسٹی طلبہ کی کردار سازی میں غیرمعمولی دلچسپی لینا چاہئے۔ پروفیسر جاوید سمیع سیکرٹری منتخب ہوئے، جو اسپیس سائنس شعبے کے صدر ہیں۔ وہ سائنس کی پالیسی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حکومت کو تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر امان اللہ ملک جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے، جو قانون کا گہرا اِدراک رکھتے ہیں، وہ ہمارے قانونی اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اِسی طرح حکومت کی معاشی منصوبہ بندی میں گراں قدر کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک زبردست ذہنی انقلاب آ چکا ہے، جو دوسری یونیورسٹیوں کے لئے بھی رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔

تازہ ترین