• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے برطانیہ میں ایک سروے کیا گیا ہے، جس کا مقصد برطانیہ بھر کے بچوں کو دی جانے والی تعلیم کے معیار کو جانچنا اور معیاری تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کرنا تھا۔ سروے کے مطابق، شمال مغربی لندن میں واقع علاقے برینٹ کے الپرٹن کمیونٹی اسکول کے بچے، پورے برطانیہ میں سب سے پیچھے ہیں۔

الپرٹن کے سیکنڈری اسکول میں پڑھنے والے بچے35مختلف زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں او ر85 فی صد بچوں کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کئی بچے ایسے گھروں میں رہتے ہیں، جہاں ایک چھت تلے پانچ خاندان مشترکہ طور پر رہائش پذیر ہیں اور ان میں سے کئی بچوں کو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

الپرٹن کمیونٹی اسکول میں داخل ہونے والے کئی طالب علموں کے لیے برطانوی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا یہ پہلا تجربہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوفزدہ اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور ان رکاوٹوں کو عبور کرنا کسی بھی لحاظ سے آسان کام نہیں۔

الپرٹن کمیونٹی اسکول کے بچوں کو ایک ہی استحقاق حاصل ہے، وہ دنیا کی سب سے بہترین ٹیچر سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس ٹیچر کا نام اینڈریا ظفیراکاؤ ہے، جو 2018ء کا ’’گلوبل ٹیچر پرائز‘‘ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

اینڈریا ظفیراکاؤ کون ہیں؟

39سالہ اینڈریا ظفیراکاؤ پڑھانے سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے اسکول کے بچوں اور ان کے والدین سے رابطے کو بہتر بنانے کے لیے 35مختلف زبانوں میں بچوں اور ان کے والدین کو اسکول میں خوش آمدید اور الوداع کہنا سیکھا ہے اور اب وہ ان سے رابطے کے لیے یہ زبانیں نہایت خوش اسلوبی سے بولتی ہیں۔ اینڈریا نے جو زبانیں سیکھیں ان میں اردو، عربی، ہندی، تامل، گجراتی، پرتگالی، صومالی، رومانین اور پولش زبانیں شامل ہیں۔ اینڈریا کہتی ہیں، ’’بچے جب مجھ سے مانوس ہوئے اور مجھے اپنے گھروں اور حالات کے متعلق بتایا تو مجھے پتا چلا کہ وہ کتنے مسائل اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کسی کو اس کی اپنی زبان میں خوش آمدید کہنا بہت سی رکاوٹوں کودور کردیتا ہے‘‘۔

اینڈریا ظفیراکاؤ کی نظر میں بچوں کا مستقبل روشن بنانے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو کس طرح اجاگر کیا جاسکتا ہے، آئیے جانتے ہیں۔

فنونِ لطیفہ کی اہمیت

اینڈریا گزشتہ 13سال سے الپرٹن کمیونٹی اسکول میں آرٹ اور ٹیکسٹائل پڑھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آرٹ اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آرٹ، بچوں کی نشوونما کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ کئی بچوں کے لیے آرٹ، زندگی بدلنے والا تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ بچے جو انگریزی بول نہیں سکتے یا انگریزی میں مضمون نہیں لکھ سکتے، انھیں یہاں کسی نصاب تک رسائی حاصل نہیںہوسکتی۔ لیکن آرٹ میں انھیں صرف تصویر یا کوئی آرٹ ورک بنانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انھیں انگریزی بولنا یا انگریزی میں مضمون نگاری آتی ہو۔ آرٹ میں وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں۔ ہر ایک کے پاس سُنانے کے لیے بہت ساری کہانیاں ہوتی ہیں اور آرٹ کے ذریعے ہم ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کررہے ہیں۔

اینڈریا کہتی ہیں کہ آرٹ، خصوصی تعلیمی ضروریات رکھنے والے بچوں کے لیے زندگی بدلنے والا تجربہ ثابت ہوتا ہے۔’’ہوسکتا ہے کہ یہ بچے (خصوصی تعلیمی ضروریات رکھنے والے بچے) اس تیزی اور اس معیار کے مطابق سیکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، جس طرح ان کے دیگر ہم عصر بچے، لیکن آرٹ میں ہم انھیں زیادہ وقت دے سکتے ہیں اور وہ اپنی رفتار پر سیکھ سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے سیکھنے کی رفتار کا تعین اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود کرتے ہیں تو پھر آپ اپنی پسند اور تسکین کے مطابق کام کرتے ہیں اور آپ ایسا کام کرتے ہیں، جس پر آپ خود بھی فخر محسوس کرسکیں۔

اینڈریا سمجھتی ہیں کہ تعلیم کو کچھ لوگوں کیلئے مخصوص (Exclusive)ہونے کے بجائے مشمولہ (Inclusive)یعنی سب کیلئے عام ہونا چاہیے۔ بچوں کیلئے اعلیٰ معیار کی تعلیم کے حصول میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہیے، تاکہ کل جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو اچھی نوکری کے حصول کے لیے انھیں مساوی مواقع میسر ہوں اور ان میں مسابقتی صلاحیتیں بھی بدرجہ اتم موجود ہوں۔

تخلیقی صلاحیتوں کی اہمیت

گلوبل ٹیچر پرائز ایوارڈ جیتنے کے بعد اینڈریا ظفیراکاؤ کا ایک ہی مشن ہے:تعلیم میں آرٹ کی اہمیت کو عالمی صحت پر اجاگر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں جہاں کہیں بھی کسی کانفرنس یا اسکول میں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے، ان کا موضوع ’’آرٹ کی اہمیت‘‘ ہی ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آرٹ سے مراد ’اینڈ پراڈکٹ‘ نہیں ہے، آرٹ ایک عمل کا نام ہے، آرٹ ایک سفر کا نام ہے، یہ وہ ہنر اور علم ہے جسے بچے ’اینڈ پراڈکٹ‘ تک پہنچنے کے عمل کے دوران حاصل کرتے ہیں۔ آرٹ انھیں خود کو پہچاننا سِکھاتا ہے ، آرٹ سیکھ کر انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے لیے معاشرے میں ایک مقام بناسکتے ہیں۔

آرٹ، تعلیم میں محض مشمولیت کو ہی فروغ نہیں دیتا، بلکہ آرٹ بچوں کو وہ ہنر سکھانے کے لیے بھی اہم ہے، جو چوتھے صنعتی انقلاب (انڈسٹری 4.0)میں کامیابی کے لیے انھیں درکار ہوں گے۔ بدقسمتی سے، دنیا کے اکثر ملکوں میں ’رٹا لگاکر‘ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جاتا ہے، تخلیقیت کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ اینڈریا کہتی ہیں، ’’ہماری اگلی نسل نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا حاصل کرسکے گی؟ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کئی مسائل لاتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ’مسائل حل کرنے والی نسل‘ بنانا ہے اور ہم جب تک انھیں مسائل حل کرنے والے ہنر نہیں سیکھائیں گے، ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ بچوں میں مسائل حل کرنے کی صلاحیتیں آرٹ کے ذریعے ہی پیدا کی جاسکتی ہیں‘‘۔

تازہ ترین