• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو اپنی سرحدیں تجارت کیلئے کھولنا ہوں گی۔ یہ بات چین کے صدر شی جن پنگ نے دوسرے ’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘ کے موقع پر کہی، جس کا 25تا 27اپریل کو بیجنگ میں کامیاب انعقاد ہوا۔ چین کے صدر نے اپنی بات میں نہ تو کسی سے درخواست کی ہے اور نہ کسی کو تجویز دی ہے بلکہ اُنہوں نے تاریخ کی ایک ناگزیریت کی نشاندہی کی ہے۔ دنیا اپنی سرحدیں تجارت کیلئے کھولے یا نہیں لیکن اُس کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں۔ تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے ۔

اِس تبدیلی کا ادراک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اِس بات کو سمجھا جائے کہ چین کے صدر نے یہ بات کیوں کی ہے۔ دراصل چین نے 2013میں ون بیلٹ ون روڈ کا تصور دیا تھا، جس کے تحت ایشیا کو پرانی شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ ایک نئی اور جدید شاہراہ کے ذریعے یورپ اور افریقا سے جوڑا جائے گا۔ دنیا کی بڑی آبادی ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرے گی تاکہ مشترکہ ترقی اور خو شحالی کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔ چین نے یہ تصور اِسلئے دیا کہ تاریخ انسانی میں اِس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی ریاست یا قوم اِس قابل ہوئی تو وہ صرف چین یا چینی قوم ہے۔ اِس سے قبل نہ کسی قوم نے یہ تصور دیا اور نہ ہی وہ ایسا تصور دینے کے قابل بنی۔ اِس تصور کو حقیقت میں بدلنے کیلئے چین نے 14، اور 15مئی 2017ءکو پہلے ’’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں دنیا کے 29ملکوں کے سربراہانِ مملکت اور حکومت، 130ممالک کے نمائندوں اور 70بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اُن میں سے زیادہ تر نمائندوں نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یعنی بی آر آئی پر دستخط ہے، جو ایک معاہدہ ہے۔ اِس معاہدے پر دستخط کرنے والوں نے چین کے اُس تصور سے اتفاق کیا۔

چین نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا یہ مقصد بیان کیا کہ دنیا میں ایک بہت زیادہ کھلا اور موثر عالمی تعاون کا بیلٹ فارم تشکیل دیا جائے۔ یہ بیلٹ فارم انتہائی مضبوط اور قریبی شراکت داری کا نیٹ ورک قائم کرے۔ اِس سے زیادہ منصفانہ، مناسب اور متوازن عالمی نظام حکومت قائم کرے۔ امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی بی آر آئی کی مخالفت میں ناکام رہے۔ دو سال بعد جب 25تا 27اپریل 2019کو بیجنگ میں دوسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم منعقد ہوا تو صرف ایشیا اور افریقہ کے زیادہ ممالک نے اس میں شرکت کی بلکہ یورپ اور لاطینی امریکہ کی نمائندگی بھی پہلے سے زیادہ تھی۔ یعنی دنیا چین کی اس بات سے متفق ہو رہی ہے کہ دنیا کو اپنی سرحدیں تجارت کیلئے کھولنا ہوں گی۔ تجارت کیلئے سرحدیں بند کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سخت قوانین بنا کر باہر کے تاجروں کو اپنے ملک میں آنے سے روکا جائے۔ یہ سخت قوانین اِس لئے بنائے جاتے ہیں کہ اپنے ملک میں تجارت اور معیشت کو تحفظ دیا جائے۔ اگرچہ یہ تحفظ تاریخ میں صرف نو آبادیاتی ریاستوں کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں رہا لیکن پھر بھی تجارت کیلئے نو آبادیاتی تسلط کا شکار ریاستوں نے اپنے نام نہاد تحفظ کی خاطر سخت قوانین بنائے۔ اب تحفظ والی نو آبادیاتی اور سامراجی ریاستیں بھی بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شریک ہیں اور وہ بھی اُس فورم میں شریک ہیں، جو صدیوں سے نو آبادیاتی اور سامراجی ریاستوں کی لوٹ مار کا شکار رہی ہیں۔ تاریخ انسانی میں صدیوں سے نو آبادیاتی اور استعماری نظام رائج رہا۔ یہ تاریخ میں اپنی شکلیں بدلتا رہا، ایک شکل یہ تھی کہ غریب قوموں کو غلام بنا کر اور اُن کی نسل کشی کر کے اُن کے وسائل لوٹے گئے۔ یہ نظام صدیوں تک رائج رہا۔ دوسری یہ تھی کہ غلام اقوام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر جدید نو آبادیاتی تسلط میں رکھا گیا یہ عہد دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا اور 2001کے نائن الیون کے واقعہ تک جاری رہا۔ یہ سرد جنگ کا عہد تھا۔ جدید نو آبادیاتی قوتوں کا مقابلہ اشتراکی قوتیں کر رہی تھیں۔ نائن الیون کے بعد استعماری نظام نے اپنی تیسری شکل اختیار کی اور تہذیبوں کے تصادم کے نام پر دنیا سے نامعلوم دہشت گردوں سے جنگ کی اور سابقہ نو آبادیوں اور غلام قوموں کو دہشت گردی کے نام پر اپنے تسلط میں رکھا۔ استعماری نظام کی تینوں شکلوں میں جنگ اور خونریزی کے ذریعہ دنیا کو کنٹرول کیا گیا اور جنگی معیشت دنیا میں رائج کی گئی۔ دراصل یہ تینوں شکلیں ایک ہی نظام کا تسلسل تھیں۔ چین نے پہلی مرتبہ یہ تصور دیا کہ جنگ، اسلحہ بنانے والی کثیر الاقوامی کمپنیوں کو دہشت گردی اور فوجی طاقت سے کنٹرول کرنے کی بجائے دنیا کو مشترکہ ترقی اور خوش حالی کے عمل سے کنٹرول کیا جائے۔ یہ سامراجی، جدید نو آبادیاتی اور نئے عالمی ضابطہ کی پرانی تینوں استعماری شکلوں سے ایک تصور ہے۔ دنیا کو اب فوجی طاقت، اسلحہ کی سیاست، خونریزی، دہشت گردی، خفیہ کارروائیاں، تیسری دنیا کے ممالک کی افواج کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے، دہشت گرد تنظیموں پر فنڈز خر چ کرنے اور ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نام نہاد جنگوں، عالمی مافیاز، اولیگارشیز، کارٹیلز اور ایلومیناتی (ILLUMINATI)یا فری میسن موومنٹ سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ چین نے یہ تصور دیا ہے کہ وہ اِن سارے حربوں کے بجائے اپنا پیسہ خرچ کرے گا اور دنیا میں اپنی ضرورت کے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرے گا تاکہ اس کی بڑی آبادی اور بڑی معیشت کیلئے دنیا میں جگہ پیدا ہو سکے۔ سامراجی ہتھکنڈوں، استعماریت، خونریزی، اسلحہ کی تجارت اور سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی بالادستی سے قومیں تھک جاتی ہیں اور وہ اب مجبوراً چین کے تصور کی حامی ہو رہی ہیں ۔ دوسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم اس لئے زیادہ کامیاب ہوا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس فورم میں شرکت کی اور ابتدائی خطاب کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ جدید دنیا میں چین نے جو ترقی کی ہے، وہ مثالی ہے۔ چین نے ایک ارب انسانوں کو غربت سے نکالا ہے۔ ہمیں چین سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے لیکن چین سے سبق حاصل کرنے کیلئے سیاست، فلسفہ اور تاریخ کے وسیع مطالعے اور علم اور عرفان کی ضرورت ہے۔ تاریخ یہ بعد میں فیصلہ کریگی کہ تجارت کیلئے سرحدیں کھولنے کی ناگزیر یت کے کیا اثرات ہوتے ہیں لیکن یہ سرحدیں چین کے سب سے بڑے مخالفین کو بھی کھولنا ہونگی۔ چین کے سماج میں وہ ساری خرابیاں موجود تھیں، جو اُس وقت ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں۔ چین نے اس صدی کو اپنی صدی کیسے بنایا اور چین دنیا کو اپنا نیا ضابطہ کیوں دے رہا ہے۔ اس کا ادراک ہمارے بس کی بات نہیں۔

تازہ ترین