• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منظور رضی

یکم مئی یا پھر یوم مئی 1886ءدنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن ہے، اس روز دنیا بھر کے محنت کش شکاگو کے شہید محنت کشوں کی یاد میں اپنے اپنے ملکوں میں بڑے جوش و جذبہ، انقلابی نعروں کے ساتھ جلسے، جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر 1886ء کی کامیاب ہڑتال اور 8 گھنٹے اوقات کار کے حوالے سے مناتے ہیں۔ یوں تو محنت کاروں، مظلوموں، غلاموں، مجبوروں، محکوموں کی بڑی طویل اور صدیوں پر محیط جدوجہد رہی ہے۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ترقی کرنے لگی اور محنت کش بغاوت بھی کرتے رہے ان کے کوئی اوقات کار بھی نہ تھے لیکن 18 ویں اور 19ویں صدی میں مزور طبقہ ابھرنا اور منظم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صنعت لگنا شروع ہوگئی تھی۔ کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے کارخانے اور انجن مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یورپ ترقی کی راہ پر گامزن تھا، پاپائیت بھی زور و شور سے جاری تھی۔

1789ء میں فرانس میں ادھورا انقلاب بھی آچکا تھا، یورپ میں بعض ترقی پسند شاعر، ادیب، دانشور، قلم کار، صحافی اور سیاسی رہنما محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اشتراکیت اور سوشلزم کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ کارل مارکس اور اینگلز کے نظریات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ کمیونسٹ لیگ بن چکی تھی، ان کا مینی فیسٹو آگیا تھا۔ مزدور انجمن سازی کی جانب چل پڑے تھے۔ سرمایہ داری عروج پر تھی۔ یہ وہ ہی وقت تھا جب 1886ء آگیا۔ عین اسی سال یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو کے محنت کشوں نے اعلان بغاوت کردیا۔ آج سے ٹھیک 133سال قبل یکم مئی کا تاریخی سانحہ پیش آیا جب انقلابی شعور سے لیس ایسے جوشیلے انقلابی اور جدوجہد کرنے والے سیاسی اور مزور رہنما پیدا ہوچکے تھے، جنہوں نے شکاگو میں پہلی اور مکمل ہڑتال کرکے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا رخ، نیا موڑ اور اپنا خون دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔ یہ محنت کش (Hay) مارکیٹ چوک پر جمع تھے، ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانو! ہم بھی انسان ہیں۔ ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے، ہمارے اوقات کار مقرر کرو۔ ہمیں روزگار دو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، وہ نعرے لگا رہے تھے۔ دنیا کے مزدور، ایک ہو جاؤ، سرمایہ داری، مردہ باد، وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے، پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا۔ ملوں، کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ یہ یکم مئی 1886ء تھا۔ پھر صبح کے ایک اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر یہ لکھا تھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہو چکی ہے، آگے بڑھو فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ اپنے اوقات کار مقرر کراؤ۔ اپنے مطالبات منوانے کے لئے جدوجہد جاری رکھو۔ حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری فتح ہے۔ اسی میں تمہاری بقاء ہے۔ لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک، مزدور اتحاد، زندہ باد۔ صحافی کی اس تحریر نے مزدوروں میں مزید جذبہ پیدا کردیا۔ محنت کشوں نے زوردار نعرہ کے ساتھ آٹھ گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ پیش کردیا۔ ہم آٹھ گھنٹے کام کریں گے۔ ہم آٹھ گھنٹے آرام کریں گے۔ ہم آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔ حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا۔ انہوں نے محنت کشوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کردیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم لہو سے سرخ ہوگیا۔ ایک محنت کش کی قمیص لہو سے تر ہوگئی، پھر انہوں نے لہو میں ڈوبے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنالیا اور فیصلہ کیا کہ سرخ پرچم ہی اب ہمارا پرچم ہے۔ اس وقت سے ہی سرخ و لال پرچم دنیا بھر کے محنت کشوں کا پرچم بن گیا۔ آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کئے اور اس طرح آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے۔ اس موقع پر محنت کشوں کے چار سرکردہ رہنماؤں، فشر، انجل، پیٹرسنز اور اسپائیز سمیت 7رہنماؤں کو پھانسی کی سزا جعلی مقدمہ چلا کر سنا دی گئی۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام، اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ بعد ازاں 1917ء میں روس میں محنت کشوں کا انقلاب آیا اور حکومت بنائی سرخ جھنڈے پر درانتی اور ہتھوڑا کا نشان آج بھی موجود ہے۔ چین میں انقلاب آیا۔ آج دنیا انقلابوں کی لپیٹ میں ہے۔ یورپ میں اوقات 6گھنٹے ہوگئے ہیں۔ یورپ میں مزدوروں کو کئی ایک مراعات حاصل ہیں لیکن ہمارے ملک پاکستان میں 1886ء سے زیادہ مشکلات ہیں۔ آج پورے پاکستان میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ اوقات کار ہیں۔ حقوق صلب کئے جارہے ہیں۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، بیماری ہے، جہالت ہے، غربت ہے، خودکشی ہے، ٹریڈ یونین دم توڑ رہی ہیں۔ مزدور تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں۔

ملک ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ جاگیرداری، سرمایہ داری، بیورو کریسی کا زور شور ہے۔ مزدور، ہاری اور کسانوں کو انجمن سازی کا حق حاصل ہونا چاہے۔2018ء میں عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت آگئی ہے۔ کرپشن اور احتساب کا نعرہ لگ رہا ہے کئی سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں کئی ایک گرفتار اور سزا یافتہ ہو گئے ہیں۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ قومی اداروں کی نج کاری کی نئی لسٹیں بن رہی ہیں۔ ورلڈ بینک سے نئے معاہدے ہورہے ہیں۔ یہ ملک کس طرف جائے گا فیصلہ عوام اور محنت کشوں کو کرنا ہے۔ آیئے ہم ایک مرتبہ پھر یکم مئی 1886ء شکاگو کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کریں۔

تازہ ترین