• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قریب قریب آدھی صدی سے پانچ برس اوپر، گویا پچپن برس ہوتے ہیں جب مقدر کی کشتی نے لاہور کی سرزمین پر اتار دیا تھا، فرقہ جبریہ قدریہ کا معلوم نہیں پھر بھی جاری و ساری کائنات میں فرماں روائی اُسی کے قوانین کی دکھائی دے رہی ہے۔ سو اے میرے منڈی بہائو الدین! تو آج بھی میری صبح ہے، میری شام ہے۔ تیرے درختوں سے میں نے گیت سنے، اُنہوں نے اپنے سایوں میں مجھے جگہ دی، کہانیاں بھی سنائیں، تیری دوپہروں کے سکوت میں مَیں نے زندگی کے رازوں کی صدائیں سماعت کیں، تو نے مجھے وقت کی حاکمیت و ابدیت سے آگاہ کیا، تیری یاد میں مجھے ماضی کے درد کی پہچان ہوئی۔

میرے شہر! دل چاہتا ہے پہلے میں تجھے روس کے نغمہ سرا شاعر اور ادیب رسول حمزہ توف کے داغستان لے چلوں، وہاں سے تیری انگلی پکڑ کر اُس کے قصبے ’’سدا‘‘ میں قدم رکھوں اور کہوں، جیسے رسول حمزہ توف کا داغستان اُس کا ذہنی سائبان اور اُس کا گائوں ’’سدا‘‘ اُس کے شباب و ضعیفی کی پُر زور موسیقیت ہے، ایسے ہی تجھ سے صرف آٹھ نو میل کے فاصلے پر رتووال وہ گائوں ہے جہاں میں نے ہوش کی آنکھ سے ربِ عظیم کےزمینی سیارے کا چہرہ دیکھا، اُس کے خط و خال سے اُسی طرح حیرت زدہ ہوا جیسے صدیوں سے ہر نوخیز اِس گم شدگی سے گزر رہا ہے، زمانے کی لاتعداد گردشوں میں ہر ایک نے اپنے اپنے دیہاتوں کی سرسراہٹوں کو ہی دنیا کی سب سے عظیم ترین شیرینی قرار دیا۔

اے میرے شہر! تجھ سے یہ جو آٹھ نو میل کی دوری پر رتووال کا گائوں ہے اُس کی کسی صبح، دوپہر، شام، کسی بھی وقت جب میں ربِ عظیم کے اِس زمینی سیارے کو دیکھنے کے قابل ہوا، میں تجھے تو تیری عظمت بعد میں بتائوں گا، پہلے میں تیرے سے جڑے ہوئے اِس رتووال کی دل نشیں کہانی کا سارا حسن تیری سرگوشیوں کے لئے یاد کراتا ہوں۔ تو سن! اپنے ساتھ جڑے ہوئے اِس رتووال کے آب حیات کا سندیسہ۔

رسول حمزہ توف نے بھی اپنے گائوں ’’سدا‘‘ کی یادوں کے آغاز میں جہاں آنسوئوں کے موتی پروئے وہاں قہقہوں کی برساتوں سے بھی قاری کو جل تھل کر دیا۔ چنانچہ تیرے ساتھ جڑے اِس رتووال کے لئے بس میں اتنا کہوں گا، یہ میرا وہ گھروندا ہے جہاں میں نے چھوٹی سی عمر میں تیز ہوائوں کی شدید ترین گونج دار سنسناہٹوں کے ساتھ الہڑ نہیں لاپرواہ سادگی کے آمیزے میں ڈھلی ہوئی جوانیوں کو دیکھا، سرو یا بوٹے سے قد نہیں، تھرتھراتے عمودی اجسام کے لذت آگیں نشیب و فراز میں پوشیدہ حیرتوں نے مجھے ٹکٹکی باندھنا سکھائی، جب رتووال کی چیختی، شور مچاتی اور چُبلاتی ہوائوں کی زور آوری سے اُن کے لاچے بےپروا ہونے کے سوا کوئی راستہ نہ پا رہے ہوتے تب میں اُن کے حسن میں دوڑتی سرخ زقندوں کی زد میں آ جاتا، جن زقندوں کے شعوری اثرات کا ابھی میری عمر کے کھاتے میں اندراج نہیں ہو سکتا تھا، مجھے یوں لگتا جیسے میرے اندر کی ساری باغیانہ سسکاہٹ کا تمام تر جوش و خروش دماغ کی راہوں سے ہوتا آنکھوں کے راستے بہہ رہا ہو۔

مثلاً تیرا ذکر تو معلوم نہیں زلفِ یار کی طرح دراز ہوتا یا غمِ ہجراں کے طور گزر جاتا ہے، یہ تو اُسی لمحے کی آزمائش ہے جب میں تیرے حسنِ دلربا کی خوشبوئوں میں گھر جائوں گا، تمہارے ساتھ جڑا یہ رتووال ہی کسی سمندر سے کم نہیں، اُس کی دونوں مسجدیں بڑی اور چھوٹی، اُس کے دونوں پرائمری اسکول، اُس کا کھلا اور چوڑا گوردوارہ، اُس کے باہر میلوں تک پھیلی ہوئی ہم سب گائوں والوں کی زرعی زمینیں، اُن زرعی زمینوں کی صبحیں، دوپہریں اور شامیں، ایک لافانی خوبصورتی کا مکمل نمونہ، اُس کی نہر کا پل، اُس کے درخت اور جھاڑیاں، اُن میں لمبی اور اونچی بیریاں، چھتری جیسے پیندو بیروں کے جھنڈ، گندم کی کٹائی اور مونجی کی بوائی کے دنوں میں کسانوں کا خدا کے آسماں تلے اپنی آسوں، محنتوں اور خدشوں کی بہاروں اور خزائوں میں امید و بیم کے ہلکورے لینا، کماد بیلنے کے وقت گنے کی راب بننے سے اُس کے گڑ ہونے تک ہمارے بزرگوں کا ہماری ضدوں سے بچنے کے لئے اُس راب کو گنوں کے اردگرد لپیٹ کر ہمیں لبھانا، غرض میں کہوں دنیا بھر میں ہر ایک کا گائوں اُس کے لئے لافانی جلوہ نمائیوں کی تصویر ہو گا، جیسے میرا رتووال، میں امریکہ، انگلینڈ ہو آیا ہوں، میں نے اپنے مطالعے سے فرانس، جرمنی، کینیڈا، سعودی عرب، ناروے، ہالینڈ، فن لینڈ، ہندوستان، غرض سارے جہاں کی عمارتوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو ایک لحاظ سے دیکھا، جانا، امریکہ میں تو عملاً بھی بڑے تعلیمی اداروں میں جانا ہوا، مگر۔۔۔میرے منڈی بہائو الدین! سچ یہ ہے تیرے ساتھ جڑا ہوا گائوں رتووال میرے دل سے نہیں نکل سکا، اُس کے پرائمری اسکول کی کچی پکی عمارت اور اُس کے ساتھ چلنے والے رہٹ کی ٹینڈوں کی آوازیں اور شفاف پانی کا گرنا اور بہنا، آج بھی مجھے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ معصوم پسندیدگیوں میں لے جاتا ہے، اب میں قلم رکھتا ہوں، میرے شہر! اِس یقین کے ساتھ کہ زندگی نے ساتھ دیا تو تیرے ساتھ ساتھ جڑے رتووال اور پھر تیرے حسین سراپا کے بیان میں آخری سانس تک جائوں گا۔

ابھی میں رتووال کی اُس خانقاہ کا ذکر کرتا چلوں جہاں مجھے ہمیشہ کوئی اسرار محسوس ہوتے اور اُس سیم و تھور کی زمینوں کی یاد دلائوں جہاں مرغابیوں، مگوں اور تیتروں کے جھنڈ کے جھنڈ اُترتے، ہمارے بزرگ روزانہ صبح اُنہیں شکار کر کے ایسے لاتے جیسے آج ہم صبح شہروں میں چائے پیتے ہیں۔

تازہ ترین