تحریک انصاف کے اہم رکن اسد عمر کے استعفیٰ کے بعد وزارتِ خزانہ کے ذمہ دار اب عبدالحفیظ شیخ مقرر کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں ہر حکومت کو محصولات میں دشواریوں کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں قومی آمدنی سرکاری اخراجات سے ہمیشہ کم رہی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت ہو یا ماضی کی حکومتیں، سب نے غیر ملکی مالیاتی اداروں، دوست ممالک اور مقامی ذرائع سے قرض حاصل کرکے کام چلانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو البتہ یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے چھٹکارا دلوا دیا تھا۔ انفراسٹرکچر کی ترقی، پیداوار میں اضافے کے لئے حکومتوں یا اداروں کا قرض لینا دنیا بھر میں ایک روٹین سمجھا جاتا ہے۔ صرف کم ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت والے ملک ذرائع پیداوار کی ترقی اور قومی آمدنی میں اضافہ کے لئے قرض لیتے رہتے ہیں۔
برطانوی معیشت دنیا کی بہت مضبوط معیشت مانی جاتی ہے لیکن برطانوی حکومت مارچ 2018ء میں 1786ارب پونڈ کی مقروض تھی۔ دنیا کی مضبوط ترین معیشت والے ملک امریکہ کی حکومت پر اپریل 2019ء کے آغاز میں 22.03کھرب ڈالر کا قرضہ تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت دسمبر 2018میں 5.2کھرب ڈالر کی مقروض تھی۔ جرمنی، فرانس، جاپان، تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی عرب ممالک پاکستان کے قریبی دوست ترکی، ملائشیا سبھی قرضے لیتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ قرض سے حاصل ہونے والی رقم خرچ کہاں کی جاتی ہے؟ یہ رقم پیداواری ذرائع پر ٹھیک طرح خرچ کرکے قومی آمدنی میں اضافہ کیا جائے تو ملکی معیشت مضبوط اور کرنسی کی قدر مستحکم رہتی ہے۔ قرض سے حاصل کردہ رقوم کو غیر پیداواری ذرائع، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی وغیرہ میں خرچ کر دیا جائے تو جی ڈی پی میں اضافے، معیشت کے استحکام اور مقامی کرنسی کی قدر میں بہتری کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔
پاکستان آج 90ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔ 60ء کے عشرے میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں معاشیات کے ایک بہت بڑے ماہر ڈاکٹر محبوب الحق کے تیار کردہ پانچ سالہ منصوبے پر عمل سے پاکستان نے صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کا آغاز کر دیا تھا۔ پاکستان اس وقت بھی دوسرے ملکوں اور عالمی اداروں خصوصاً عالمی بینک سے گرانٹ حاصل کر رہا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان نے اس دور میں کئی ممالک کی مدد کی۔ ان میں آج انتہائی مضبوط معیشت والا ملک جرمنی (تب مغربی جرمنی) بھی شامل تھا۔ 1963ء میں مغربی جرمنی نے پاکستان سے بارہ کروڑ روپے قرض حاصل کیا تھا۔ صرف یہی نہیں پاکستان نے تعلیم، انفرااسٹرکچر اور دفاعی شعبوں میں بھی جرمنی اور دیگر کئی ممالک کو تعاون فراہم کیا تھا۔ 70اور اس کے بعد کی دہائیوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے لئے گئے قرض پیداواری صلاحیتیں بڑھانے پر کم اور انتظامی اخراجات پر زیادہ خرچ ہوئے۔ 60ء کے بعد ہم نے بڑے ڈیم نہیں بنائے، آبی، شمسی اور ہوائی ذرائع سے بجلی حاصل کرنے پر رقوم خرچ نہیں کی گئیں۔ اس کے بجائے مہنگی تھرمل بجلی کے پاور ہاؤسز لگائے گئے۔ پچھلے پچاس برسوں میں قومی سطح پر پہلی بار ہونے والا بڑا کام نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ (اول) میں لاہور اسلام آباد موٹروے کی تعمیر تھا۔ دوسرا بڑا کام پیپلز پارٹی کی حکومت میں 2019ء میں سندھ میں تھر کے مقام پر ملنے والے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا آغاز ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی، قومی پیداوار کا مطلوبہ ہدف تک نہ پہنچ پانا اور غیر ملکی قرضوں میں اضافے کی زیادہ تر ذمہ داری حکومتی پالیسیوں پر اور ملک کے فنانشل منیجرز پر عائد ہوتی ہے لیکن پاکستان میں برسر روزگار عام لوگ بھی ان ذمہ داریوں سے مبرا نہیں ہیں۔ پاکستان نہ صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اس ملک میں برسر روزگار افراد کی بڑی تعداد کی آمدنی اچھی خاصی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں اور قصبات میں رہائشی، کمرشل، صنعتی اور زرعی جائیداد کی بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتیں لوگوں کے پاس موجود دولت کا پتا دیتی ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا طرزِ رہائش، بچوں کے تعلیمی اخراجات، تفریح کے لئے اہلِ خانہ کے ساتھ ہفتوں کے غیر ملکی سفر، ان کے پاس موجود دولت کی واضح نشانیاں ہیں، تاہم ان دولت مند افراد کی اکثریت ٹیکس نہیں دینا چاہتی۔ پاکستان میں انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کی تعداد تقریباً بیس لاکھ ہے۔ ان میں سے تقریباً نصف تنخواہ دار ایسے افراد ہیں جنہیں تنخواہ ملتی ہی ٹیکس کٹوتی کے بعد ہے۔ غیر تنخواہ یافتہ رجسٹرڈ افراد میں سے بھی کئی افراد ہر سال نہیں بلکہ کبھی کبھار ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والے یا کم ٹیکس ادا کرنے والے کئی افراد اس عمل میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس کیوں دیں؟ حکومت نے ٹیکس دینے والوں کو کیا سہولتیں فراہم کی ہیں؟ ٹیکس دینے والے یا ان کے اہلِ خانہ بیمار پڑ جائیں تو انہیں علاج اپنے وسائل سے کروانا پڑتا ہے، ٹیکس دینے والے اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی جانب سے درست ٹیکس دینے والوں کی کوئی قدر تو نہیں کی جاتی لیکن کم ٹیکس دینے والوں یا بالکل ٹیکس نہ دینے والوں کی ناجائز اور غیر قانونی آمدنی کو مختلف اسکیموں کے ذریعے وقتاً فوقتاً تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹیکس دینے والوں کی عزت کرکے، انہیں ہیلتھ انشورنس، بچوں کی تعلیم، بہتر ٹرانسپورٹ نظام، پنشن اور دیگر ذرائع سے اچھی مراعات (Returns) فراہم کرکے پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد اور قومی و صوبائی ریونیو میں بہت زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لئے ٹیکس دینے والوں کے اطمینان کے مطابق ہر پانچ لاکھ آبادی پر ایک بڑا سرکاری اسپتال، کئی ڈسپنسریاں، ہر حلقے میں معیاری گورنمنٹ پرائمری اور سیکنڈری اسکول اور کالج کا قیام اولین قدم ہونا چاہئے۔ حکومت اگر لوگوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے ٹیکس وصولی کی کوشش کرے تو ملک میں ٹیکس گزاروں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔