• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف طبی بنیادوں پہ چھ ہفتے کی ضمانت کا عرصہ جاتی امرا میں گزارنے کے بعد دوبارہ کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ ان چھ ہفتوں میں نہ صرف شریف میڈیکل سنٹر سے چیک اپ، ٹیسٹ اور ڈاکٹروں کے بورڈز سے مشاورت کے ساتھ آغا خان اسپتال کراچی، تابا انسٹیٹیوٹ کراچی، اے ایف آئی سی راولپنڈی، آر آئی سی راولپنڈی اور پی آئی سی لاہور سے مختلف رپورٹوں پہ ماہرانہ آرا لی گئیں بلکہ برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے معروف ڈاکٹروں سے آئندہ علاج کے حوالے سے رہنمائی بھی حاصل کی گئی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے سپریم کورٹ کو ان کی بیماری کی پیچیدگی اور پاکستان میں علاج میں درپیش ممکنہ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بیرونِ ملک علاج کیلئے ضمانت میں توسیع کی استدعا کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ کلثوم نواز کی رحلت کے باعث مسلم لیگ (ن) اور دیگر حلقوں نے نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی خاموشی کی ٹھوس وجہ کو قبول بھی کر لیا تھا لیکن جب اس خاموشی نے طول پکڑا تو ڈیل اور ڈھیل کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ طبی بنیادوں پر ضمانت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر ووٹ کو عزت دو کے اس بیانیے کو دوبارہ اپنالیا جس سے گزشتہ سات ماہ سے بوجوہ کنارہ کشی اختیار کر لی گئی تھی۔ کلثوم نواز کی رحلت کے بعد سے نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کا خاموش ہو جانے والا ٹویٹر ہینڈل بھی ایک بار پھر متحرک ہو گیا جبکہ (ن) لیگی کارکنوں میں دوبارہ وہ جوش دیکھنے کو ملا جو کبھی جمہور کی بالا دستی کے ترانوں پہ جھومتے ان کے اندر جھلکتا تھا۔ نواز شریف کو پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کے ہمراہ ایک بڑی ریلی کی صورت میں واپس کوٹ لکھپت چھوڑنے کا فیصلہ جہاں مسلم لیگ (ن) کے واپس مزاحمتی سیاست کی طرف لوٹنے کیلئے لٹمس ٹیسٹ تھا وہیں نواز شریف کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی موجودگی سے یہ یقین بھی دلانے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی میں اب صرف نواز شریف کا بیانیہ ہی چلے گا۔ 7مئی کے اس سیاسی شو کے ذریعے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک ویڈیو بیان کی مدد سے ایک بار پھر اپنے چاہنے والوں کو یہ باور کرایا کہ انہیں کرپشن پہ نہیں بلکہ صرف ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے کے جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مختلف حلقوں کی طرف سے مصالحانہ خاموشی سے مزاحمتی بیانیے کی طرف واپس لوٹنے کے اس سفر کی ساری ذمہ داری شہباز شریف پہ عائد کی جا رہی ہے اور انہیں ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی، پی اے سی چیئرمین شپ سے دستبرداری کے مشورے اور پارٹی میں ہونے والی وسیع پیمانے پہ حالیہ تنظیمی تبدیلیوں کو بھی شہباز شریف کے بیانیے کی ناکامی سے جوڑا جا رہا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ مفاہمتی رویے کے پس پردہ ان کاوشوں کا عمل دخل ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے بطور صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کرتے رہے ہیں تاکہ کوئی ایسا درمیانی راستہ نکال لیا جائے۔شریف خاندان کی روایات اور شہباز شریف کے دل میں بڑے بھائی کی عزت و تکریم کے بارے میں جاننے والوں کو یہ بھی ادراک ہے کہ شہباز شریف کسی طور پہ بھی نواز شریف کی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ چھوٹا بھائی کھیل میں شامل دوسرے فریقین کوکچھ ضمانتیں دے رہا ہو اور بڑے بھائی اور بھتیجی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو، کیا کوئی ذی شعور یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ نواز شریف بیٹی کے ساتھ لندن سے گرفتاری دینے لاہور پہنچ جائے اور شہباز شریف ان سے اظہار یکجہتی کیلئے آنے والے لیگی کارکنوں کو ائیر پورٹ بھی نہ پہنچا سکیں۔کیا مسلم لیگ (ن)کے رہنما اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اپنی نا اہلی کے بعد جی ٹی روڈ پہ ووٹ کو عزت دلانے کے جس بیانیے کی گونج میں کارکنوں کا لہو گرمایا گیا تھا اسے ٹھنڈا کرنے کیلئے نواز شریف اور مریم نواز کی طویل خاموشی شہباز شریف کے بیانیے کے عین مطابق نہیں تھی۔ کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ ٹویٹر سے دوری اور سوشل میڈیا پہ (ن) لیگی کارکنوں کی پیٹھ تھپکنے سے گریز کی پالیسی اپنے چچا کی اشیر باد کے بغیر اپنا رکھی تھی۔ (ن) لیگی کارکنان بلاول بھٹو کی جارحانہ تقریروں پہ جب بے بسی سے اپنے قائدین کی طرف دیکھتے رہے توان کی رہنمائی نہ کرنا کیا صرف صدر مسلم لیگ (ن) کی پالیسی تھی؟ نواز شریف کے بیانیے پہ لیگی رہنمائوں کی زبانیں کیا اتنا عرصہ ان کی اپنی مرضی سے گنگ رہیں؟ ووٹ کی حرمت اس سارے عرصے میں کیوں یاد نہ آئی؟ کیا یہ سب شہباز شریف کی ہر حکمت عملی میں ان کے شانہ بشانہ نہیں کھڑے رہے اور تو اور 23 مارچ کو جو (ن) لیگی کارکنان اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کیلئے کوٹ لکھپت جیل کے باہر جمع ہونا چاہتے تھے انہیں منع کرنے کا بیان کس کی منظوری سے جاری کیا گیا تھا۔ گزارش بس اتنی کہ جو رہنما، کارکنان اورجمہوریت پسند ووٹ کی عزت اور جمہور کی بالادستی کے بیانیے سے مخلص ہیں انہیں ابہام کا شکار مت کریں، ان سے سچ بولیں اور اعتراف کریں کہ گزشتہ سات ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی جو پالیسی رہی اس میں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز اور پارٹی کے مرکزی رہنما سب ایک صفحے پہ تھے اور اب جو بیانیہ اختیار کیا جا رہا ہے اس میں بھی ان سب کی مرضی شامل ہے۔

تازہ ترین