• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ طاہر القادری کا 4روزہ دھرنا ختم کرا دیا گیا ۔ اگر سب پر غور کریں تو ابھی تک یہ راز راز ہی رہا کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری جو7سال تک سیاست سے تائب ہو کر جب کینیڈا جا بسے تھے تو پھر الیکشن کے موقع پر اچانک وہ پاکستان کیوں آئے؟ یا یوں کہئے کہ وہ کیوں لائے گئے؟ اس کے درپردہ کونسی طاقت تھی جس کی ایماء پر آناً فاناً کروڑوں روپے خرچ کر کے لاہور کا جلسہ عام ہوا پھر لانگ مارچ کا اعلان جس میں 40لاکھ افراد کے ساتھ تخت ِ لاہور سے روانگی اور اسلام آباد کا دھرنا حکومت کی تحلیل تک اسلام آباد میں قیام ،پھر روز روز ناممکن مطالبات کی فہرستیں اور آخر میں کچھ حاصل کئے بغیر لانگ مارچ کا خاتمہ، آخر یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا ۔ پورے ملک کو دہشت اور وحشت میں مبتلا کرنے کی کیا وجہ تھی ۔ بلا وجہ ہزاروں معصوم عوام جن میں بچے، بوڑھے اور نوجوانوں کو جذباتی تقاریر سے متاثر کر کے کھلے آسمان تلے اسلام آباد کی سرد راتوں میں بے گھر کر کے حکومت پر بلاوجہ دباؤ ڈالا گیا آخر کیوں؟ فوج اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ عوام جن جن پریشانیوں میں مبتلا تھے ان میں سے تو ایک لفظ بھی معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا اور جس جس کو بُرا بھلا کہا گیا ان کے خلاف ایک لفظ بھی اس تحریری معاہدے میں نہیں ہے پھر دھرنا کیوں ختم کیا گیا؟ یہ سب کچھ ایک فلم یا ڈرامہ سے کم نہیں تھا جس کو 20کروڑ عوام نے اخبارات ، ٹی وی چینلز سے14جنوری 2013ء سے 17جنوری 2013ء تک دن رات سو کر اور جاگ کر دیکھا۔ امید یہ تھی کہ علامہ طاہر القادری بھارت کے انا ہزارے ثابت ہوں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی آنے والے الیکشن پر کوئی اچھی توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔ 16مارچ تک تو خود حکمران جماعت پی پی پی کے وزراء بار بار الیکشن کرانے کا عندیہ دے چکے تھے پھر طاہر القادری نے کونسا نیا معاہدہ کیا۔ اسی چیف الیکشن کمشنر جس کو وہ مستعفی کرانے کی ضد کر رہے تھے انہی کی سربراہی میں الیکشن کرانے میں تیار ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن کا تبصرہ سب سے بہتر لگا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا، وہ بھی مرا ہوا۔ لگتا ہے حکومت نے اپنی حکمت عملی جو عمران خان اور نواز شریف سے متوقع تھی طاہر القادری کے ذریعے پوری کرا دی۔ اب لانگ مارچ اور سونامیوں کے دعویدار کیا کریں گے۔ اس اعلامیہ میں مہنگائی،کرپشن ، عدلیہ سے محاذ آرائی، گیس اور بجلی کی فراہمی، دہشت گردی کا خاتمہ ، ٹارگٹ کلنگ ، کرپٹ سیاستدانوں سے نجات کسی ایک نکتہ کو معاہدے میں شامل کیااور نہ ہی ان میں سے ایک نکتہ پر حکومت کو پابند کیا گیا۔
پھر لانگ مارچ کا کیا فائدہ عوام کو پہنچایا گیا ؟ کل پھر کوئی اور 40پچاس ہزار کے مجمع کو اسلام آباد لا کر یہ ڈرامہ رچا سکتا ہے کیونکہ اس معاہدے کی رو سے اس 4روزہ لانگ مارچ کے ذمہ داروں اور شامل ہونے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی اس کی ضمانت بھی موجود ہے ۔ البتہ ان 40پچاس ہزار افراد کو سلام پیش کرنا چاہئے جنہوں نے صبروتحمل سے ایک اچھے پاکستانی ہونے کی مثال قائم کی ، نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اسلام آباد آئے ، بغیر کسی توڑ پھوڑ یا ہنگامہ کئے بغیر اپنے قائد علامہ طاہر القادری کی ہدایات پر عمل کر کے خاموشی سے واپس اپنے اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی بہت بردباری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ نہ جلوس کی راہیں روکیں نہ روایتی پولیس لاٹھی چارج ہوا نہ کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی، نہ بجلی کے کرنٹ چھوڑے گئے، نہ میدانوں میں پانی بھرا گیا ، نہ آنسو گیس استعمال کی گئی اور نہ ہی کسی کو پریشان کیا گیا ۔ غالباً پاکستان کی تاریخ کا پہلا پُرامن مظاہرہ یا لانگ مارچ ہے جس میں دونوں طرف سے ایک دوسرے سے بھڑنے کے بجائے امن و سکون سے اپنا مقصد حکومت تک پہنچا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔ اس کے بعد اس پھس پھسے معاہدے پر کیا عمل ہو گا وہ آنے والے وقت میں قوم کے سامنے آجائے گا۔ ہو گا پھر وہی، اسی طرح کے لوگ دوبارہ الیکشن لڑیں گے ۔ اب تو ڈگریوں والی شِق بھی ختم ہو چکی ہے لہٰذا جعلی ڈگریوں اور غیر ملکی شہریت کا قانون بھی ختم ہو چکا ہو گا ۔ سب کچھ وہی ہو گا جو 60ستّر سال سے اس ملک میں ہوتا رہا ہے اور علامہ طاہر القادری کے معاہدوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح عوام اپنے جاگیرداروں ، چوہدریوں ، نوابوں ، خانوں ، وڈیروں کو دوبارہ گھوڑوں پر بٹھا کر 5سال کیلئے اسمبلیوں میں لائیں گے، نہ چہرے بدلیں گے نہ نظام بدلے گا نہ قوم کی قسمت بدلے گی۔ عدلیہ فیصلے دے دے کر تھک جائے گی مگر اس پر عملدرآمد حکومت کی اپنی مرضی پر منحصر ہو گا۔ عوام صرف کرکٹ ، ہاکی ، اسنوکر یا پھر کسی اور کھیل کی جیت میں مست رہیں گے،اللہ اللہ خیر صلا۔
تازہ ترین