• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
کوئی بھی کام جو مقررہ لمٹ یعنی حدود و قیود سے زیادہ یا کم ہوجائے یا شریعت کی مقرر کردہ شرعی تقاضوں کے خلاف ہو وہ انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔رمضان المبارک میں انتہائے سحر و افطار ہی کو لے لیجئے، سرکار دوجہاں نبی آخرالزمان محمد عربیﷺ کی واضح حدیث مبارکہ ہے کہ سحری میں تاخیر سے روزہ بند کرنا اور افطاری میں جلدی کرنا افضل عمل ہے۔ برطانیہ میں ہم قیام پذیر ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک سینٹرل کلینڈر باہمی اتفاق رائے سے ترتیب دیا جاتا، انتہائے سحر اور افطاری کے لئے شریعت محمدؐ کے طابع ٹائم ٹیبل مرتب کردیا جاتا، سارا مسئلہ حل ہوجاتا، لیکن بدقسمتی سے آغاز رمضان ہی سے مسائل شروع ہوگئے تھے۔چند برس قبل تک صرف دو مختلف رائے ہوتی تھیں، ایک گروپ سعودی عرب کو فالو کرتا، آغاز رمضان و عیدین سعودی اعلان کے مطابق کرتے اور دوسرے اہل سنت الجماعت برطانیہ یا قریبی ممالک میں چاند کی شرعی تقاضے پورے کرتے علم سائنس و ٹیکنالوجی اور رائل آبزرویٹری کی تعلیمات کی روشنی میں اعلان کردیا جاتا، کبھی کبھار برطانیہ میں ایک ہی روز آغاز رمضان ہوجاتا اور کبھی کبھار ایک روز کے فرق سے ہوتا، ایسے ہی عیدین بھی، کبھی ایک ہی روز اور بعض اوقات دوسرے روز عید کی خوشیاں منائی جاتیں،جب اتفاق رائے سےایک دن آغاز رمضان یا ایک دن عید منائی جاتی تو ہر کوئی اس وسیع تر اتحاد کا کریڈٹ سمیٹنے کی کوشش کرتا۔چلو یہ ایک الگ بحث ہے، اب صورت حال یہ آن پڑی ہے کہ سعوی عرب کو فالو کرنے والے اپنی جگہ قائم ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت کے اندر مزید دو گروہ بن گئے ہیں، امسال آغاز رمضان پر ایسی جگ ہنسائی کی گئی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں رویت ہلال اور سائنسی معلومات کی روشنی میں مل بیٹھ کر سابق روایات کے مطابق عزت و احترام سے فیصلہ کرلیتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا، ہم بجائے شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے گرو بندیوں میں بٹ گئے، اتوار کی شام کو مختلف اطراف سے مساجد کو فون جانا شروع ہوگئے، سعودی عرب کو فالو کرنےوالوں نے تو پیر کو روزہ کا آغاز کردیا۔جماعت اہل سنت کے دو گروپوں میں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، بعض اہل سنت الجماعت کی مساجد میں بھی آغاز پیر کو ہوا، لیکن نمازی آپس میں مزید تقسیم ہوگئے، وہ مساجد جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی، آدھی رہ گئی، بعض مساجد میں کمیٹی ممبران اور نمازیوں کے درمیان تلخ کلامی بھی ریکارڈ ہوئی۔پھر دوسرے روز یعنی منگل والے دن آغاز کرنے والوں نے بھی نماز تراویح کیلئے مساجد کا رخ کیا۔ مسئلہ یہیں ختم نہ ہوسکا، اب انتہائے سحر اور افطار میں بھی بڑا واضح فرق بلکہ سحری میں دو گھنٹوں کا فرق نوجوان نسل کو کنفیوژ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر ہم قرآن و سنت اور شریعت محمدیؐ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے تو سب کچھ ٹھیک ہوتا، لیکن ہم نے اپنے اپنے پیر خانے اور شیخ کے حکم کو ہی شریعت جان لیا۔ ان حالات، واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی انتہا پسندی کی شکل ہے۔ پہلے عشرہ کے بعد اجتماعی افطاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ایسے ہی ایک گرینڈ افطار ڈنر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس روز سورج پورے9 :00غروب ہونا تھا اور روز افطاری کا وقت دو منٹ پاس تھا۔ رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی عبادت اور فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے ہے ہر وقت بندہ کسی نہ کسی لحاظ سے عبادت میں مشغول ہوتا ہے، عین افطاری کے وقت باآواز بلند لمبی دعا کرانا اور رقت آمیز کیفیت طاری کرنا، ظاہری طور پر تو ٹھیک ہے، لیکن اندرونی کہانی اپنے مرشد کے بتائے ہوئے ٹائم ٹیبل تک افطاری کو طول دینا مقصود تھا۔ سیکڑوں لوگوں میں اٹھارہ گھنٹوں پر مشتمل روزہ رکھ کر کچھ شوگر کے مریض، کچھ دیگر بیماریوں میں مبتلا انہیں وقت پر روزہ، افطار کرنے دیں۔ خوامخواہ ہم نے دین اسلام میں اپنے مسلک یا طریقہ کار کو دیگر لوگوں پر مسلط کرنا شروع کردیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک لحاظ سے انتہا پسندی ہے۔
تازہ ترین