• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سخت سردی کے باوجود اس کے پاؤں میں جرابیں یا جوتے نہیں تھے، لڑکے نے پلاسٹک کی چپل پہن رکھی تھی اور میلی سی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور سردی سے بچاؤ کیلئے قمیض کے نیچے ایک سویٹر پہن رکھا تھا۔ اس کے ہونٹ سردی سے نیلے ہو رہے تھے اور ہلکا ہلکا کانپ بھی رہا تھا ۔ علامہ طاہر القادری کے دھرنے میں شریک چودہ سالہ یہ لڑکا ایک پلازے کی سیڑھیوں پر بیٹھا چاولوں کے ایک مومی لفافے کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا، شدید سردی نے اس کے ہاتھ بھی شل کردیئے تھے، اس لئے وہ اس مومی لفافے کو کھول نہیں پا رہا تھا۔ میں اس لڑکے کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا لیکن اس لڑکے کو یہ بالکل احساس نہ تھا کہ کوئی اسے غور سے دیکھ رہا ہے حالانکہ آپ اگر کسی شخص کو اس طرح مسلسل دیکھیں تو یہ احساس ضرور ہو جاتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں آگے بڑھ کر اس لڑکے کو چاولوں کا وہ مومی لفافہ کھول دوں جس میں غالباً اتنی مضبوطی سے گرہ لگا دی گئی تھی کہ یہ چاول دھرنے میں کھانے والوں کیلئے نہیں بلکہ دوسرے ملک پارسل کرنے کیلئے پیک کئے گئے ہیں میں آج تین دن سے دھرنے میں جا رہا تھا اور دھرنے میں شریک لوگوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔میں علامہ کی تقریر اور دھرنے کے انتظامات کاجائزہ لیتا تھا اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا تھا کہ دھرنے میں شریک لوگوں کی تعداد کیا ہے لیکن کئی مرتبہ کوشش کے باوجود یہ اندازہ نہ لگا سکا لیکن دھرنے میں جا کر یہ اندازہ ضرور ہوا تھا کہ اس دھرنے کی منصوبہ بندی بڑی فہم و فراست سے کی گئی ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے لیکن آج جب میں دھرنے کی مین شاہراہ کے ساتھ بغلی سڑک پر علامہ صاحب کے کیبن کی طرف جا رہا تھا تو نہ جانے کیسے اس لڑکے نے میری توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس لڑکے سے بات کروں اس سے پوچھوں کہ یہ کون ہے؟کہاں سے آیا ہے؟ اس کے ساتھ اور کون کون آیا ہے؟ لیکن اس کی حرکات نے مجھے کچھ دیر کے لئے اس سے بات کرنے سے روک دیا ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اب یہ لڑکا چاولوں کے مومی لفافے کو لگائی گئی گرہ کو ہاتھوں سے کھولنے کی ناکامی کے بعد دانتوں سے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ اس کوشش میں بھی ناکام رہا تھا آخر اس نے اپنی قمیض کی سائیڈ پر لگی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے ایک چھوٹا سا چاقو نکالا اس نے اس چاقو سے اس لفافے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیا اور پھر اس سوراخ کی مدد سے مومی لفافہ پھاڑ دیا۔ اس نے لفافہ فرش پر رکھ لیا اور چاول کھانے لگا۔ چھوٹے اور پھٹے لفافے کے باوجود وہ یہ کوشش کررہا تھا کہ چاول نیچے نہ گرنے پائیں۔ میں نے اس سے گفتگو کا یہ بہترین موقع جانا اور میں اس کے سامنے سیڑھی پر بیٹھ گیا میں نے موٹی جینز پہن رکھی تھی اور سیڑھی پر بیٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنی ٹھنڈی تھی۔ اپنے سامنے یوں ایک اجنبی کو بیٹھے دیکھ کر وہ ذرا سا گھبرا گیا لیکن میں نے فوراً ہی اسے کہا بیٹا آپ چاول کھاؤ میں ذرا تھک گیا تھا اس لئے بیٹھ گیا ہوں۔ لڑکے کا اعتماد بحال ہواتو اس نے مجھے بھی چاول کھانے کی دعوت دی تو میں نے شکریہ ادکیااور کہا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے۔ مزید گفتگو سے معلوم ہواکہ وہ نویں کلاس کا طالب علم ہے اور بھکر سے آنے والے شرکاء کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اکیلا آیا ہے۔ لڑکے کا والد بھکر میں نائی کی دکان کرتا ہے میں لڑکے سے یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ وہ دھرنے میں کیوں شریک ہوا ہے؟کیا وہ علامہ صاحب کے کسی تعلیمی ادارے میں پڑھتا تھا؟یا اس کے کسی ناظم نے زیادہ حاضری دکھانے کیلئے اسے زبردستی اپنے ساتھ شامل کیا ہے؟ یا وہ اسلام آباد دیکھنے کے شوق میں آیا ہے؟لیکن اس نے ان سارے عوامل کی نفی کردی اسے اسلام آباد گھومنے کا شوق ضرور تھا اسے فیصل مسجد جانے کا بھی شوق تھا اسے جب میں نے بتایاکہ اسلام آباد کے مرغزار میں ایک چڑیا گھر بھی ہے تو اس نے چڑیا گھر دیکھنے کے شوق کا اظہار بھی کیا لیکن دھرنے میں وہ کسی اور وجہ سے آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ دھرنے میں کیوں شامل ہوا ہے تو لڑکے نے کہاکہ میں نظام کی تبدیلی چاہتا ہوں، میں نے اس سے پوچھاکہ وہ نظام میں کیا تبدیلی چاہتا ہے تو میرے اس سوال پر وہ گڑبڑا گیا لیکن کچھ شرماتے ہوئے کہنے لگا دراصل میں پڑھنا چاہتا ہوں میں نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے تو تمہیں پڑھنے سے کس نے روکاہے، تم ضرور پڑھو اپنی قمیض کے بٹن سے کھیلتے ہوئے کہنے لگا ابا کہتا ہے اب فیس نہیں دے سکتا، میرے ساتھ کام پر جایا کرو یا موٹر سائیکلوں کے مستریوں کا کام سیکھ لو، مجھے یہ دونوں کام اچھے نہیں لگتے کافی گفتگو کے بعد لڑکا اب تھوڑا بے تکلف ہو چکا تھا میرے پوچھنے پرکہنے لگا پہلے میں اسٹیج ڈراموں کا اداکار بننا چاہتا تھا لیکن میں اب اداکار بھی نہیں بننا چاہتا بلکہ بہت زیادہ پڑھ کر ماسٹر(ٹیچر) بننا چاہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ دھرنے کے بعد تم ماسٹر بن جاؤ گے اسے جواب سمجھ نہیں آرہا تھا، دوسرے طرف دیکھنے لگا اس نے کوئی جواب نہ دیا لیکن میں اس کا جواب سمجھ چکا تھا کہ گرہ لگے مومی لفافے کو کھولنے کیلئے چاقو کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ غریب کے حق پر نظام کی مضبوط گرہیں لگا دی گئی ہیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ سردی کے شدید دھرنے کے باوجود بھی بھکر کے اس لڑکے کے ماسٹر بننے کیلئے کچھ نہ ہوسکا ۔خود تو علامہ صاحب سردی سے محفوظ کنٹینر اور بلٹ پروف گاڑیوں میں موجود رہے جبکہ اس نوجوان جیسے کئی اور افراد جو بہت سی امیدیں وابستہ کئے ہوئے شدید سردی میں بھی ثابت قدم رہے ان کے خواب نا مکمل ہی رہے۔ اور کچھ لیڈر جمہوریت بچانے اور کچھ ریاست کو بچانے کیلئے اپنی اپنی کامیابیاں سمیٹ کر بلٹ پروف گاڑیوں میں مبارکبادیں وصول کرتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
تازہ ترین