• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کی ٹھٹھرتی یخ بستہ راتیں، برفانی بارشیں اور ہوائیں لانگ مارچ کرنے والوں کے حوصلے پست نہ کر سکیں، وہ اپنی کھلی ہوا کی خندقوں میں ڈٹے رہے۔ اس سارے منظر کو دیکھ کر سسی کے عشق و جنون کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔ صحرا کی آگ برساتی لو اور جھلسا کر خاک کر دینے والی تپش سسی کو پنوں کے تعاقب سے روک نہ سکی، پنوں جس کو اس کے بھائی مدہوشی کی حالت میں راتوں رات اغوا کر کے لے جا چکے تھے۔ کچھ ایسے ہی پنوں کی تلاش میں لانگ مارچرز یخ بستہ راتیں ننگے آسمان کے نیچے گزارتے رہے۔ اس مرتبہ سسی کے پنوں ڈاکٹر قادری کی شکل میں نرم و گداز ٹریلر میں آرام فرماتے رہے۔ آخر میں ثابت یہ ہوا کہ ٹریلر میں بیٹھا سسی کا پنوں نہیں سیاسی تھیٹر کا طالع آزما تھا۔ دھرنا ڈرامے کے انجام سے غالب کا یہ شعر ذہن میں گونجا:
چلتا ہوں تھوڑی دور تک ہر راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اس سے پہلے انہی عوام نے مینار پاکستان پر عمران خان کو پنوں سمجھ لیا تھا اور وہ اس کے لئے سسی کی طرح سماجی حدود و قیود کو توڑ کر بسوئے سیاسی صحرا روانہ ہو گئے تھے۔ عمران خان کے جیالے جنوں میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ ہر ایک کی پگڑی اچھالتے آئے۔ چند ہی مہینوں میں ان پر یہ بھید کھل گیا کہ عمران خان بھی پنوں نہیں بلکہ اسے اغوا کرنے والے بھائیوں میں سے ہی تھا۔ یہی سین حیدرآباد میں پیر پگارا کے جلسے میں دہرایا گیا یعنی عوام کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں اور یہ تلاش کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے جاری ہے اور کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی رہنما کے نام پر سیاست کے سمندروں میں تلاطم برپا کرتی رہی ہے۔
عوام سے مراد درمیانہ طبقہ اور اس سے نیچے کے طبقات ہیں۔ وسطی پنجاب، خیبرپختونخوا اور شہری آبادیاں زیادہ تر درمیانے اور نچلے درمیانے طبقات پر مشتمل ہیں یعنی اس علاقے میں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کا غلبہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں بالخصوص وسطی پنجاب کی سیاست مخصوص ہم آہنگی میں کوئی جہت اختیار کرتی ہے۔ اس کا سب سے اولین اظہار 1970ء کے الیکشن میں ہوا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کی رہنمائی میں وسطی پنجاب میں درمیانے طبقے کے سیاست دانوں نے مکمل فتح حاصل کی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ 1977ء تک درمیانے طبقے کو خارج کر کے کنونشن مسلم لیگ کے پرانے جاگیرداروں کو دھڑا دھڑ بھرتی کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس کے بعد ضیاء الحق کے زمانے میں یہ رجحان مزید خراب ہوتا گیا اور جاگیردارانہ سیاست کے جن بھوت (ذات برادری، فرقہ و نسل پرستی) پھر سے میدان سیاست میں شیطانی رقص کرنے لگے۔ اگرچہ سیاسی سطح پر سیاست الٹا گیر لگا کر جاگیرداری کے گردوغبار سے اٹ گئی لیکن معاشی سطح پر درمیانہ طبقہ جتنی تیزی سے وسیع تر ہوا اس کی مثال پچھلے دو ہزار سال میں نہیں ملتی۔ تارکین وطن کارکنوں نے لاکھوں خاندانوں کو نچلے طبقات سے اٹھا کر درمیانے طبقے میں لا کھڑا کیا۔ مشینی زراعت، کاروباری سیکٹر کے پھیلاوٴ اور دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی نے درمیانے طبقات میں کئی سو گنا اضافہ کیا۔ اگرچہ غربت کا خاتمہ تو نہیں ہوا لیکن ہر سطح پر معیار زندگی میں اضافہ ہوا۔ اس نئے معاشرے نے اپنے طور پر معاشی میدان میں برق رفتاری سے ترقی کی لیکن ریاست کے ادارے اپنے قدیم انداز میں منجمد ہو گئے۔ یہ صورتحال وسیع تر درمیانے طبقے کو قابل قبول نہیں تھی۔ مذہبی انتہا پسندی اور دوسرے منفی رجحانات بھی اس نئی صورتحال کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوئے لیکن کلی طور درمیانے طبقے کے غلبے کا یہ معاشرہ مثبت تبدیلیوں کا خواہاں تھا۔ اگر کمی تھی اور ہے تو وہ سیاسی رہنمائی کی کیونکہ ملک کی بڑی پارٹیاں پرانے روایتی سیاسی کلچر کی نمائندہ تھیں اور اپنے آپ کو نئے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں کر رہی تھیں۔
سیاسی جمود کو سب سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ڈکٹیٹر کے خلاف بغاوت نے توڑا۔ آزاد عدلیہ کی وکلاء کی عظیم تحریک نے سیاسی جمہوریت اور ریاستی اداروں کی اصلاح کی سیاست کیلئے مہمیز کا کام کیا۔ درمیانہ طبقہ اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی تھا جو جسٹس چوہدری صاحب کے انتظار میں راولپنڈی سے لیکر لاہور تک ایک صف بنا کر پورا پورا دن انتظار کرتارہا۔ بقول رام ریاض مرحوم:
رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تیری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
اسی تحریک نے شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے لئے ملک واپسی کا دروازہ کھولا اور انتخابات کا راستہ ہموار کیا۔ پنجاب کے اسی درمیانے طبقے نے مسلم لیگ (ن) کے کھمبوں کو بھی صوبائی و قومی اسمبلی تک پہنچایا اور پیپلزپارٹی کی سیاسی ساکھ کو برباد کیا۔ پیپلزپارٹی کی تمام تر حماقتوں کے باوجود یہ طبقہ صدر آصف زرداری سے امید لگائے ہوئے تھا کہ وہ ریاستی اداروں کی اس طرح سے اصلاح کریں گے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہوگی، ہر طرح کی انتہا پسندی اور بدعنوانی ختم ہوگی اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن حیف ایسا نہیں ہوا اور عوام کسی نئے مسیحا کا انتظار کرنے لگے۔
ان کو یہ مسیحا عمران خان کی شکل میں دکھائی دیا اور وہ پروانوں کی طرح ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان کو توقع تھی کہ عمران خاں بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کی طرح کوئی مثبت پروگرام ان کے سامنے پیش کریں گے لیکن خان صاحب اپنی محدود سوچ کی وجہ سے اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو سمجھ ہی نہ پائے اور ڈرون حملوں کی مخالفت اور امریکہ دشمنی میں اس قدر الجھے کہ وہ عوام کے وسیع تر مفادات کو فراموش کر بیٹھے، نتیجہ یہ ہے کہ عوام نے بھی انہیں فراموش کرنا شروع کر دیا۔ایک مرتبہ پھر”مسیحا“ کی پوسٹ خالی ہو گئی جس کو ڈاکٹر طاہر القادری نے پُر کرنے کی کوشش کی۔ ان کے پُرہجوم اجتماع اور لانگ مارچ کا روح رواں وہی درمیانہ طبقہ تھا جس نے عدلیہ کو آزاد کرایا تھا اور جس نے عمران خان کے سیاسی ستارے چمکائے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی وارننگوں اور ڈیڈ لائنوں کے پس منظر میں اسی طبقے کی بے چینی اور کچھ کر گزرنے کی تمنا تھی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی ڈیڈ لائنیں بے مغز خودکش حملوں کی دھمکیوں کے مترادف تھیں۔ ان کے چند ہزار ساتھی ریاست پاکستان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے، وہ صرف اپنے آپ کو شہید بنا کر نام پیدا کر سکتے تھے۔ حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں نے کمال ہوشیاری سے قادری صاحب کو شہید نہ ہونے دیا اور ان کو ریاستی پروٹوکول دے کر فارغ کر دیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری ”مسیحا“ کی نشست سے نیچے لڑھک گئے لیکن عوام کے دل میں ایک اَن دیکھے نجات دہندہ کی تلاش جاری ہے اور دیکھئے کون اس نشست پر بیٹھنے کا روپ دھارتا ہے یا اس کو پُر کرتا ہے۔
تازہ ترین