• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی واضح برتری
چُنائو میں کام یابی پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی جَشن منا رہے ہیں

لوک سبھا کے انتخابات میں کام یابی کے نتیجے میں نریندر مودی کے مسلسل دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں اگلے پانچ برس بھی بی جے پی کی پالیسیز جاری رہیں گی۔ الیکشن کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی کی سیاسی جماعت، بی جے پی بھارتی ووٹرز کو یہ باور کروانے میں کام یاب رہی کہ اس کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی مُلک کے لیے بہتر ثابت ہوئی۔ حالیہ چُنائو میں بی جے پی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھانے میں کام یاب رہی اور اس کی جیت فیصلہ کن ہے، کیوں کہ بھاجپا کے اتحاد نے اپنی حریف جماعت، کانگریس کے اتحاد کے مقابلے میں کافی زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ بھارتی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں غیر جانب دار اور شفّاف انتخابات کروانے میں ناکام رہی اور وہاں بہ دستور گورنر راج نافذ ہے، جس سے ساری دُنیا پر یہ واضح ہو گیا کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی حکومت کی گرفت کس قدر کم زور پڑ چُکی ہے۔ لہٰذا، وزیرِ اعظم کی حیثیت سے مودی کے لیے سب سے بڑا چیلنج کشمیری عوام کو مطمئن کرنا ہو گا اور یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے بھی ایک بڑی آزمایش ہو گی۔ انتخابات کے دوران مُلک بَھر کی 29ریاستوں میں 60کروڑ سے زاید افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا اور تمام اہم رہنما اپنے اپنے حلقوں میں کام یاب ہوئے۔ اگر مودی کے دوبارہ وزیرِ اعظم بننے سے پاک، بھارت تعلقات پر مرتّب ہونے والے اثرات کی بات کی جائے، تو آیندہ دنوں کی پالیسی سب ظاہر کر دے گی۔ لیکن صرف وکٹری اسپیچ یا چند بیانات ہی کافی نہیں ہوں گے۔ البتہ بی جے پی کی پہلے سے زیادہ مارجن سے جیت مودی کو زیادہ اعتماد کے ساتھ پاک، بھارت تعلقات میں بہتری کی کوششوں پر آمادہ کر سکتی ہے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ مودی کے دوسرے وزارتِ عظمیٰ میں بھارت کی علاقائی و عالمی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں، تاوقتیکہ خطّے اور عالمی سیاست میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو۔

بھارتی انتخابات پر نظر رکھنے والے اکثر ماہرین کو یقین تھا کہ چُنائو میں کانگریس اپنی پوزیشن بہتر تو کر لے گی، لیکن اس کی جیت ممکن نہیں۔ دوسری جانب راہول گاندھی نے 2014ء کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں حالیہ انتخابی مُہم میں خود کو بہتر امیدوار ثابت کیا اور اُن کی بہن، پریانکا گاندھی اور والدہ، سونیا گاندھی نے اس مُہم میں اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ انتخابات سے قبل ہی راہول گاندھی یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی پارٹی کے لیے ’’مودی لہر‘‘ کا مقابلہ مشکل ہو گا۔ البتہ انہوں نے اپنے منشور میں سیکولر ازم اور ترقّی پسند اقتصادی پالیسی پر زور دیا ۔ گرچہ کانگریس نے مُلک میں بسنے والے 24کروڑ مسلمانوں کے لیے خاصی گنجایش رکھی تھی، لیکن بی جے پی کی جانب سے پیدا کردہ ہندو قوم پرستی کے فضا میں اس کے لیے ہندو ووٹ کھونے کا خطرہ مول لینا بھی ممکن نہ تھا۔ گو کہ بی جے پی نے کانگریس ہی کی اقتصادی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا، لیکن رواں برس بھارت کی شرحِ نمو 7.5فی صد رہی، جو متاثر کن ہے۔ راہول گاندھی کی ایک بڑی کم زوری یہ بھی ہے کہ وہ صوبائی سیاسی جماعتوں کو متّحد کرنے میں ناکام رہے، جن کی تعداد 26ہے اور یہ خاصے گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ یہ چھوٹے شہروں اور دیہات کے معاشی معاملات حل کرنے میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں اور ووٹرز ان کی طرف تیزی سے متوجّہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں میں ان کا بڑا عمل دخل ہے۔ پھر پلواما حملے کے بعد کانگریس عوامی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ناکام رہی، جب کہ مودی سرکار نے پاکستان، دہشت گردی اور بھارتی فوج کو اس قدر حسّاس معاملہ بنا کر پیش کیا کہ اس کے خلاف تو کجا، مقابل بھی کوئی بیانیہ لانا خود کو غدّار کہلانے کے مترادف تھا۔ پاکستانی میڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کے نام پر بھارتی ذرایع ابلاغ نے مودی حکومت کے مؤقف کو قومی مؤقف بناکر پیش کیا اور ایسا لگتا تھا کہ سارا میڈیا ہی حکومت کی زبان بول رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی کام یابی نہیں تھی اور اس کا بی جے پی نے انتخابات میں خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا۔ پاکستانی میڈیا کے نگہبانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ حریف مُلک میں انتخابی گرما گرمی کے دوران بیانات بازی کے مقابلے سےکہیں دشمن کو تو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ جب سرجیکل اسٹرائیکس انتخابی موضوع بن جائیں، تو پھر لو پرو فائل رہنے کی حکمتِ عملی بہتر نہیں ہوتی اور فریقِ مخالف اس کا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ پھر بی جے پی نے وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان کی جانب سے بھارت کے ساتھ مذاکرات پر اصرار، نوجوت سِنگھ سدھو کے ذریعے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو بھی اپنے حق میں استعمال کیا اور بھارتی عوام کے سامنے پاکستان کو ایک کم زور حریف کے طور پر پیش کیا، جب کہ اُس وقت بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ نئی حکومت کو محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنی تمام تر توجّہ داخلی استحکام پر مرکوز رکھنی چاہیے، جب کہ خارجہ امور بعد کا معاملہ ہے۔ غالباً اس سلسلے میں وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کی کچھ نیا کر دکھانے کی خواہش غالب رہی۔ پھر عمران خان کو قبل از وقت یہ بیان دینے کی کیا ضرورت تھی کہ مودی جیت گئے، تو پاک، بھارت مذاکرات ممکن ہوں گے۔ کیا نتائج کا انتظار کرنا مناسب نہ تھا، حالاں کہ وہ ماضی میں خود ’’مودی کا جو یار ہے، وہ مُلک کا غدّار ہے‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔

عموماً خارجہ پالیسی انتخابی فتح و شکست میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی اور صرف دو طرفہ، علاقائی اور عالمی سطح کے تعلقات میں معاون کا کردار ادا کرتی ہے، جو اوّل تو مُلک میں امن و امان قائم کرنے میں مدد دے اور دوم کاروبار کے لیے بیرونی سرمائے کے ماحول کو پُرکشش بنائے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی اس سلسلے میں بڑی حد تک کام یاب رہے۔ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے انہوں نے 56غیر مُلکی دورے کیے ۔ دُنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے رہنمائوں سے اُن کے ذاتی تعلقات ہیں، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ، شی جِن پِنگ، پیوٹن، شنزو ایبے، محمدبن سلمان، جسٹن ٹروڈو اور مِرکل وغیرہ شامل ہیں۔ مودی نے دو طرفہ دورے بھی کیے اور تمام اہم کثیر المُلکی پلیٹ فارمز کو بھی بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ انہوں نے بھارت کی تیز رفتار اقتصای ترقّی، وسیع منڈی اور ہُنر مند افرادی قُوّت کو بڑی ہوش مندی سے استعمال کیا۔ علاوہ ازیں، مختلف ممالک میں موجود بھارتی تارکینِ وطن کے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیے۔ اسی طرح مودی نے ’’ہوم ٹائون ڈپلومیسی‘‘ کو بھی استعمال کیا، جیسا کہ چینی صدر کو اپنے گھر دعوت دینا اور خود ان کے ہاں مدعو ہونا۔ نیز، انہیں ٹویٹر پر کروڑوں افراد فالو کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کی ذاتی ہم آہنگی مُلکی مفادات کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ دوسری عالم گیر جنگ میں امریکی صدر، رُوز ویلٹ اور برطانوی وزیرِ اعظم، ونسٹن چرچل کی دوستی اس کی بہترین مثال ہے، جس نے جرمنی کو شکست دینے میں فیصلہ کن کردارادا کیا۔

اپنے پہلے دَور ِ وزارتِ عُظمٰی میں نریندر مودی نے امریکا کے چار دورے کیے اور وائٹ ہائوس میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے پیش رَو، باراک اوباما سے ملاقات کی۔ اسی طرح سابق امریکی صدر، باراک اوباما نے طویل ترین (8روز ہ) دورۂ بھارت کیا اور اسی سبب بھارت کو سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی اور بھارت کا میزائل ٹیکنالوجی ریجیم میں داخلہ ممکن ہوا۔ اس موقعے پر افغانستان میں بھارت کو کردار دینے کا ذکر بھی عام ہوا، جسے اسلام آباد نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت، چین کے خلاف اس کا مؤثر حلیف بنے۔ مودی نے بحرِ ہند اور پیسیفک میں امریکا کی انڈو چائنا پالیسی کی بھی حمایت کی ہے اور اس مقصد کے لیے مودی اور شنزو ایبے متعدد مرتبہ ملاقات کر چُکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین کے مقابلے کے لیے بھارت اور جاپان امریکی پالیسی کا حصّہ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب جاپانی وزیرِ اعظم نے بھارت کی اقتصادی امداد اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے لبرل پالیسی برقرار رکھی ہے، کیوں کہ جاپان اس بات کا خواہش مند ہے کہ بھارت انڈو چائنا میں چین کے خلاف اس کا ساتھ دے اور امریکا، جاپان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ دوسری جانب چین کے ساتھ بھارت کی دشمنی بھی ہے اور دوستی بھی۔ مثال کے طور پر چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم ایک سو کروڑ روپے سالانہ ہے، جب کہ یہ دونوں ممالک بِرکس بینک اور شنگھائی فورم کے بھی رُکن ہیں، لیکن دوسری جانب گزشتہ برس ڈوکلام پر(کوہِ ہمالیہ پر واقع انتہائی بلند مقام) دونوں ممالک کے درمیان فوجی تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اسی طرح تبت میں بھی بھارت اور چین ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور دونوں میں زبردست تنائو پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، بھارت، چین کے وَن بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا روزِ اوّل ہی سے مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک جانب پاکستان اس کا اہم فریق ہے اور دوسری جانب یہ شاہ راہ مقبوضہ کشمیر سے گزرتی ہے۔ رُوس اور بھارت دیرینہ حلیف ہیں اور بھارت کے پاس موجود زیادہ تر فوجی ساز و سامان رُوسی ساختہ ہے۔ علاوہ ازیں، رُوس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا، لیکن آج حالات بدل چُکے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان اور رُوس کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں ،نیز اسلام آباد رُوسی ساختہ ہیلی کاپٹرز خریدنے کا بھی خواہش مند ہے، جب کہ شنگھائی فورم کے تحت وہ رُوس کی فوجی مشقوں میں بھی حصّہ لے چُکا ہے، جن میں بھارت بھی شریک تھا۔ گرچہ نہرو کے زمانے سے مشرقِ وسطیٰ کے سوشلسٹ عرب ممالک کے بھارت سے بہت اچھے تعلقات رہے اور اس کا سبب غیر جانب دار تحریک میں نہرو اور جمال عبدالنّاصر کی فعالیت تھی۔ تاہم، نریندر مودی نے پہلی مرتبہ سعودی عرب اور متّحدہ عرب عمارت یعنی بادشاہتوں سے تعلقات بہتر کیے ۔ پہلے وہ سعودی عرب گئے اور پھر سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان اسلام آباد سے ہوتے ہوئے نئی دہلی پہنچے۔

وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے ایک امریکی اخبار کو انٹریو دیتے ہوئے توقّع ظاہر کی تھی کہ نریندر مودی کے انتخابات جیتنے سے پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات ممکن ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ مودی بھارت کی اکثریت یعنی ہندوئوں کے نمایندے ہیں، لیکن کیا مودی، عمران خان کی اس توقّع پر پورے اُتریں گے، کیوں کہ اب تک وہ پاکستانی وزیرِ اعظم کی طرف سے کی گئی تمام پیش کشوں کو ٹُھکرا چُکے ہیں۔ دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد مودی کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ عمران خان کی توقّع پر پورا اُترتے ہوئے اُن کی بات چیت کی پیش کش کو قبول کرنا ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی وزیرِ اعظم کو حلف برداری کی تقریب میں دعوت دی جا سکتی ہے، جیسا کہ سابق وزیرِ اعظم پاکستان، میاں نواز شریف کو دی گئی تھی اور وہ اس میں شریک بھی ہوئے تھے۔ اسی کے بعد سے برف پگھلنا شروع ہوئی اور بات چیت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعد مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، جو رُوس میں منعقدہ اوفا کانفرس کے بعد شروع ہوا اور پھر مودی اچانک نواز شریف کی ذاتی تقریب میں شرکت کے لیے غیر معمولی جذبۂ خیر سگالی کے تحت جاتی امرا آگئے، جسے عمران خان اور اُن کی جماعت نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی انتخابی مُہم کے آخری دن تک ’’مودی کا جو یار ہے، وہ مُلک کا غدّار ہے‘‘ کے نعرے لگاتے رہے، تو کیا اب مودی کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ بھی عمران خان کی طرح یو ٹرن لے لیں اور کیا عمران خان کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ اُس شخص کے ساتھ مذاکرات کریں، جسے وہ ماضی میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ گو کہ اس وقت حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں، لیکن کیا مودی 2014ء والی صورتِ حال دُہرانا چاہیں گے، حالاں کہ اس وقت انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ مودی کے پاس دوسرا راستہ اُسی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا ہے، جس کا وہ اپنی انتخابی مُہم میں اظہار کرتے رہے ہیں، لیکن اس طرح وہ اپنے سخت گیر ہندو لیڈر کے تاثر کو تقویّت دیں گے، جس کی وجہ سے انہیں پوری دُنیا کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ اب نوجوان نسل کو منتقل ہو چُکی ہے اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر بھارت میں پائے دار ترقّی ممکن نہیں، جس کے لیے پاکستان سے بات چیت ضروری ہے۔ یعنی مودی اگر بھارت کو بڑی طاقت بنانا چاہتے ہیں، تو اس کا راستہ بھی پاک، بھارت دوستی ہی سے گزرتا ہے اور اس کے بغیر برِصغیر کے عوام کی خوش حالی ممکن نہیں۔ اگر ایک مرتبہ بیٹھ کر تمام تنازعات کو طے کر لیا جائے، تو رابطوں کے راستے خود ہی کُھلتے چلے جائیں گے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے پاکستان کی ہر جماعت اور طبقہ پاک، بھارت دوستی کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ حُکم راں جماعت اس کی زبردست حامی ہے اور اسٹیبلشمینٹ اس کی ہم نوا۔ لہٰذا، اگر مودی خود کو ایک بڑا لیڈر سمجھتے ہیں، تو انہیں اپنی ذاتی تعصّبات سے بلند ہو کر سوچنا پڑے گا۔

تازہ ترین