فکرفردا…راجہ اکبردادخان برطانیہ میں کچھ عرصہ قبل ایک قانون پاس ہوا کہ مساوات کے حوالہ سے پرائمری سکولوں میں ستمبر 2019 ایک ایسا نصاب متعارف کرایا جائیگا۔ جس میں ہم جنس پرستی لیزبین تعلقات اور ایسے افراد کے درمیان جنسی تعلقات کے حوالہ سے میٹریل پڑھایا جائے گا۔ نہ ہی پارلیمنٹ میں موجود مسلمان قائدین معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے اور نہ ہی عام مسلمان اس تعلیم کے کئی پیچیدہ پہلوئوں کو جان سکا کہ جن سکولوں میں 4-3 سال عمر کے بچوں کو یہ انتہائی پیچیدہ درس دیئے جائیں گے۔ ان سے اتنی کم عمر کے بچے کس طرح نمٹ سکیں گے؟ اور ایسی متنازع تعلیم سے آنے والی نسلوں کو کیا مزید فوائد مل سکیں گے، جو موجودہ سکول نظام مہیا نہیں کر رہا؟ دو مردوں کے درمیان شادی ہونا عورتوں کا عورتوں کے ساتھ رشتہ ازواج میں بندھ جانا اور مساوات کی اس تشریح کے مطابق ایسے تعلقات کو بچوں کی زندگی میں جلد ازجلد متعارف کرا دینا، ایک مساوی بنیادوں پہ چلنے والا معاشرہ کے مفاد میں ہے، جانے یا انجانے ہمارے مسلمان پاکستانی پارلیمنٹیرینز میں سے کسی نے بھی اس قانون کی کسی بھی مرحلہ پہ مخالفت نہ کی، اگرچہ پارلیمنٹ کے اندر چند یہودی ایم پیز نے ایسی قانون سازی پہ تحفظات کا اظہار کیا مگر انہیں کسی دوسری طرف سے مدد نہ مل سکی، لہذا حکومت کو بغیر کسی ترمیم کے بل پاس کروانے میں کوئی وقت پیش نہ آئی، برطانیہ کے بڑے اخبارات مثلاً THE TIMES اور THE TELEGRAPHمیں آئے دن طویل آرٹیکلز چھپ رہے ہیں جن میں اکثریت رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ ایسی نصابی پرائمری تعلیم کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بچوں کی پرورش میں ایسی تعلیم کی عدم موجودگی سے نقصانات پہنچنے کے ثبوت ہیں۔ ٹین ایجر نے فطرتی جسمانی تقاضوں سے کس طرح نمٹنا ہے؟ معاشروں کی بہتری کیلئے انہیں کسی بھی دور میں تو اس مشکل میں رہنمائی مہیا نہیں کی گئی، اور نہ ہی انہیں آج ضرورت ہے کم از کم تین دہائیوں کے درمیان جس طرح مسلم کمیونٹیز نے بیاہ شادیوں اور رسم ورواج کے حوالہ سے اپنی اولادوں کو سرے لگایا ہے اس سے بائیں بازو کی اسٹیبلشمنٹ کو پریشانیاں لاحق ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں ایسی لادینی سوچوں کو پرموٹ اور بائیں بازو کی لبرل ازم اسلامی تعلیمات کو اپنے تحت کردیتی ہے برطانیہ کے کئی بڑے شہروں میں اس مجوزہ نظام تعلیم کے خلاف آوازیں اٹھ چکی ہیں لورپول، بریڈ فورڈ، لیڈز مانچسٹر اور دیگر کئی شہروں میں مقامی کمیونٹی نمائندگان اور سکولوں کے درمیان گفت وشنید چل رہی ہے اس سلسلے میں برمنگھم کے دو پرائمری سکولوں سے جڑی کمیونٹیز مقامی سکول انتظامیہ کے ساتھ بھرپور انداز میں انگیج ہیں اور پاکفیلڈ پرائمری کی گفتگو مکمل ہونے کو ہی تھی کہ تعطل پیدا ہوگیا، پچھلے ہفتہ برمنگھم کے ہی ایک دوسرے پرائمری سکول سے 600طلبا نے سکول بائیکاٹ کیا اور دوسرے کئی شہروں میں بھی والدین بچوں کو ایک دن سکول نہ بھیج کر اپنے احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک بھر میں کمیونٹی کو کہیں سے بھی رہنمائی نہیں مل رہی کہ گفت وشنید کو کس طرح کامیاب بنایاجائے۔ ہائی کمیشن اور دینی اشرافیہ کیلئے آگے آنے کا وقت ہے، ایک طرف سرکاری مدد یافتہ اسٹیبلشمنٹ ہے اور دوسری طرف ہماری اکثریت بھی سہمے بیٹھی ہے کہ اگر ہم بولے تو علم نہیں کیا مصیبت آدھمکے گی۔ THE TIMESنے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں برمنگھم کے ایم پی راجر گارڈسف کے اس موضوع پہ خیالات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ 5-4سال کے عمر کے بچوں کیلئے LGBTتعلیم غیر مناسب ہے کیونکہ یہ بچے بہت ہی کم عمر ہیں اسی وجہ سے وہ ANDERTON SCHOOLکے باہر احتجاج کرنے والے والدین کے ساتھ ہیں۔ راجر گاڈسف یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اگر سارہ کلاکسن (ہیڈ ٹیچر) ان بچوں کو تھوڑی بڑی عمر میں EQUILITYمساویات پڑھانے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اس سکول کے باہر روزانہ احتجاج ہورہے ہیں۔ مسلمان والدین اور دیگر نہیں چاہتے کہ ان کے بچوں کو LGBTنصاب پڑھایاجائے۔ سکول کی طرف سے والدین کو بھیجے گئے ایک خط میں انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ ان کے بچوں کو یہ بھی پڑھایاجاسکتا ہے کہ کچھ بچوں کی شاید دوممی ہوں یا دوڈیڈی ہوں LGBTکے چند حامیوں نے شکایت کی ہے کہ پچھلے اتوار کو ان پہ انڈے پھینکے گئے پولیس چیف کے مطابق اس معاملہ سے برمنگھم کی رپوٹیشن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ برمنگھم کونسل سکول کے باہر احتجاج روکنے کیلئے کورٹ آرڈر لینے کا سوچ رہی ہے۔ یقیناً ہر کسی کو انتہائی اپروچ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ برمنگھم کی ایک دوسری ایم پی جیس فلپس نے دوسری طرف احتجاج کرنے والوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میرے بچے کا سکول راجر گاڈ سف ایم پی کے حلقہ انتخاب میں ہے اور وہاں لزبین مائوں جنہیں میں جانتی ہوں کو کیا یہ کہوں کہ ان کے پانچ سال کے کم عمر بچوں کو یہ پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ وہ لزبییز ہیں؟ چیف کانسٹیبل ڈیوتھا پسن کو صورتحال پر بڑھتی ہوئی تشویش ہے اوراس کے مطابق جو لوگ ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں یقیناً وہ اس صورتحال سے خوش ہونگے۔ برٹش میڈیا اس ایشو کو قومی سطح پہ لیجانے کی ذمہ داری جزب التحریر کے کارکنوں پہ ڈال رہا ہے۔ اور ان اخبارات نے اس تنظیم کے ساتھ منسلک چند رہنمائوں کے مختلف شہروں میں اس حوالہ سے دوروں کا ذکر بھی کیا ہے LGBTکا اکثریت موضوع ہمارے دین اور روایات کے خلاف ہے۔ بائیں بازو والے بھی ہم سادہ لوح پاکستانیوں کے ساتھ عجیب کھیل کررہے ہیں ہماری سادہ لوحی کی جو چیزیں انہیں پسند آجاتی ہیں وہ ہمارے ہمدرداور جہاں کہیں بات ہماری مذہبی اقدار کی آجاتی ہے تو ان کی مساوات میں لپٹی سوچیں ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ علما کرام اور سیاسی قائدین کیونکہ دونوں کے پاس پلیٹ فارمز ہیں کمیونٹی توقع کرتی ہے کہ وہ قیادت فراہم کرتے ہوئے کمیونٹی کو اس تشویشناک ماحول سے باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ معاملہ کے حل تک ہمارے پرامن احتجاج جاری رہنے چاہئیں، اللہ ہمارا حامی وناصر رہے۔