اسلام آباد( نمائندہ خصوصی )سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے 1973کے آئین کی شق209 کے تحت کاایک حاضر سرور جج کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانے کیلئے وفاقی حکومت اور صدر کے لامحدود اختیارات میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ صدر ریفرنس دائر کرنے سے قبل اس کا مواد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیجے ۔ اگر پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میں ریفرنس کی منظوری دے تو وزیر اعظم معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل209کی کلاز پانچ اور چھ کو آرٹیکل48کی شق 6سے ہم آہنگ بنانا ضروری ہے،سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بیان میں کہا کہ مقبولیت کا رخ فاشزم کی طرف ہو رہا ہے، مشرف کے ہرکارےموجودہ حکومت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے نزدیک لے گئے ہیں۔ اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس اس جانب پیش رفت ہے۔ ججز کے خلاف ریفرنس عدلیہ کو پیغام اور وکلاء تحریک کا اثر زائل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ قوم موجودہ حکومت میں شامل مشرف کے ہرکاروں کا کردار نہیں بھول سکتی۔ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کے خلاف جرات سے فیصلہ کرنے والے ججز کو مثال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کی شروعات اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج سے ہوئی اور اب سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف صدر نے ریفرنس دائر کیا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ معزز جج کے فیصلے اور کمیشن رپورٹس اعلی مثال قائم کر رہے تھے ۔ وفاقی حکومت اور صدر کے جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے لامحدود اختیارات کے حوالے سے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے ۔ 1973 کےآئین کے آرٹیکل 209 میں ترمیم کی جاسکتی ہے، جس کے تحت صدر ریفرنس فائل کرنے سے قبل اس کا مواد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیجے ۔ اگر پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میں ریفرنس کی منظوری دے تو وزیر اعظم معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل بھیجے ۔ افسوسناک ہے کہ سیاسی ایجنڈ ے کی تکمیل کے لیے عدلیہ کا گلا بھی میڈیا اور عام شہریوں کی طرح گھونٹا جا رہا ہے ۔ عدلیہ کا گلا دبانے کیلئے ریاست کا تاریخی آلہ استعمال کیا جا رہا ہے ، جس میں کرپشن قوانین کا الگ الگ اطلاق ہے۔