• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ طاہر القادری کے دھرنے کے بعد کئی روز تک جمع تفریق اورضربیں تقسیمیں ہوتی رہیں کہ اس دھرنے سے کس کو کیا حاصل ہوا ؟کس کو کیا نقصان ہوا؟کس نے سیاسی فائدہ اٹھایا؟ اور کس نے سیاسی ساکھ کو کھو دیا؟معاہدے کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اور دھرنے کے مطالبات کے کچھ نقاط کو نکالنے کا سہرا کس کے سر ہے؟معاملات کو بگاڑنے میں کس کس نے حصہ ڈالا؟
کچھ لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ بھائی چارے اور مذاکرات کی سیاست کو فروغ دیا ہے اور کچھ یہ خوف محسوس کر رہے تھے کہ چوہدری شجاعت اس سے پہلے لال مسجد اور اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات کا بیڑا اٹھا چکے ہیں اور وہاں جو حشر ہوا کہیں وہی حشر یہاں بھی نہ ہو جائے۔
کچھ کا تبصرہ تھا کہ سارے دھرنے میں وزیر داخلہ کا کردار بڑا منفی رہا اور زیادہ نقصان بھی وزیر داخلہ صاحب کا ہواہے اور ان کی گفتگو نے ماحول زیادہ خراب کیا لیکن ایک تبصرہ یہ بھی تھا کہ دھرنے میں زیادہ نقصان کنٹینرز مالکان اور ٹرالوں کے ڈرائیورز اور ان کے عملے کا ہوا ہے۔
دھرنے میں جس طرح شرکاء کی تعداد کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے اسی طرح اس بات کو بھی بہت شک سے دیکھا جا رہا ہے کہ دھرنے کے بعد سی ڈی اے نے 100 ٹن سے زیادہ کچرا اٹھایا ہے۔
لیکن دھرنے کے بعد سب سے زیادہ خوشی ان پولیس والوں کو ہوئی ہے جو روزانہ اپنی بیرکوں اور گھروں میں مرہم پٹی کے علاوہ دودھ کے ساتھ ہلدی اور تھوم(لہسن) کا پیسٹ تیار چھوڑ آتے تھے تاکہ اگر ”اٹ وٹا“ ہو جائے تو ٹکور کا سامان موجود ہونا چاہئے۔
دھرنے سے فائدہ اٹھانے والے چھابہ اور خوانچہ فروش جو پانچ روز تک پکوڑے، سموسے، برگرز، بریانی اور گرم چائے بیچتے رہے ہیں دھرنے کے خاتمے پر تھوڑا اداس تھے کہ اگر دھرنا چند روز اور رہ جاتا تو مکان کا کرایہ بھی نکل آتا، بجلی کے بل بروقت ادا ہو جاتے یا ماہانہ کمیٹیوں کے اسباب پیدا ہو جاتے۔
دھرنے میں قادری صاحب کو کیا فائدہ ہوا؟یہ ذرا مشکل سوال ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر وہ ٹرک پر لگائے گئے کیبن کو اندر سے عوامی درشن کیلئے کھول دیتے اور اس پر ٹکٹ لگا دیتے تو تحریک منہاج القرآن کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے انتظامی امور چلانے والوں کو یہ ڈیوٹی سونپ دی ہے کہ وہ معلوم کریں کہ یہ کیبن کس نے بنایا اور اس پر کتنے اخراجات آئے ہیں تاکہ آنے والے الیکشن کی انتخابی مہم اور جلسوں میں تقریروں کیلئے اس بہترین آئٹم سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور اگر علامہ صاحب کیبن فروخت کرنا چاہیں تو اس کو خرید لیاجائے۔
حکومت جو دھرنے کو معاہدے کے ذریعے ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اس بات پر بہت خوش نظر آتی ہے اور معاہدے کو غیر آئینی قرار دیکر اپنی خوشیوں کو دوبالا کر رہی ہے اور یہ خیال کر رہی ہے کہ اس نے اپنی کمال حکمت عملی سے جمہوری اداروں کو بچا لیا ہے اور الیکشن کے التواء کا خطرہ ختم کردیا ہے، اس حوالے سے گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں حکومتی سینیٹر میاں رضا ربانی کی دھواں دھار تقریر کے الفاظ کچھ ایسے ہی تھے بلکہ ان کی تقریر کوغور سے سنا جائے تو انہوں نے دھرنے سے پیدا ہونے والے اس سوال کو بھی حل کردیا ہے کہ دھرنے اور علامہ طاہر القادری کے پیچھے کون تھا۔
دھرنے کے خاتمے سے خوشی منانے والی حکومت کے ارکان نے اگرلڈو کاکھیل کھیلاہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس کھیل میں بعض اوقات سیڑھی چڑھ کر جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ اس وقت غارت ہو جاتی ہے جب اگلے ہی لمحے ایک منہ کھولے سانپ سیڑھی چڑھنے والی اس گوٹی کو ایک مرتبہ پھر پستی میں لے جاتا ہے جو سیڑھی کے نچلے سرے سے بھی پیچھے ہوتی ہے اور لڈو کے بورڈ پر سیڑھیوں سے زیادہ سانپ ہوتے ہیں اس لئے حکومت ایک دھرنے کے خاتمے پر خوش نہ ہو بلکہ آگے آنے والے کئی ڈراؤنے سین دیکھنے کیلئے تیار رہے اور یہ نہ سمجھے کہ معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اگر معاہدے پر عمل کر بھی لیاجائے تو کچھ نہیں ہوگا بلکہ یہ وقت بتائے گا کیونکہ ابھی پِکچر باقی ہے پیارے۔۔!
تازہ ترین