• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے حوالے سے سینئر کالم نگاروں کو دی گئی بریفنگ کے دوران ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ حکومت اور آپ کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کون کرائے گا کیونکہ معاہدوں پر عملدرآمد کی حکومتی شہرت اچھی نہیں ہے۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ حکومت تو مذاکرات بھی نہیں کر رہی تھی پھر اسے کرنے پڑے، اس لئے جیسے یہ مذاکرات ہوئے، ان کی روشنی میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کا صرف اخلاقی وزن ہے کوئی قانونی حیثیت نہیں اور قانون میں ترمیم کے بغیر عملدرآمد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کا ادارہ آئین کے تحت ہے نہ اسے تحلیل کیا جا سکتا ہے نہ ہی چیف الیکشن کمشنر کو ہٹایا جا سکتا ہے، جب تک آئین میں ترمیم نہ کی جائے اور یہ شق تو خفت مٹانے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی تسلی کیلئے رکھی گئی تھی۔ فرض کیجئے کہ الیکشن کمیشن تحلیل نہیں کیا جا سکتا تو کیا الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ آئین میں دی گئی شقوں پر عملدرآمد کروا سکے۔ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 224-Aکے تحت یہ اختیار صرف وزیراعظم اور موجودہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا ہے جبکہ قائد حزب اختلاف حکومت اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے معاہدے کو مسترد کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ معاہدے کی رو سے حکمران جماعت پابند ہے کہ میں اور وہ دو ناموں پر متفق ہوں۔ آئین کے مطابق اگر اسمبلی تحلیل ہونے کے3 دن بعد تک نگران سیٹ اپ کیلئے وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف دونوں دو دو نام ایک 8رکنی کمیٹی کے سپرد کر دیں گے یہ کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی قائم کریں گی اور اگر یہ کمیٹی بھی کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہی تو پھر تجویز کردہ یہ نام الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیئے جائیں گے اور وہ اس پر فیصلہ کرے گا۔ آثار تو ایسے دکھائی نہیں دے رہے کہ نگران وزیراعظم پر اتفاق رائے ہو سکے۔ جہاں تک اسکروٹنی کا تعلق ہے پہلے صرف سات دن ہوا کرتے تھے اب 30دن کا وقت رکھا گیا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اوسطاً تعداد 7سے 8ہزار تک ہوتی ہے۔ پہلے تو ضلعی ریٹرننگ آفیسر امیدواروں کے کوائف کی چھان بین کرتے اور اگر کوئی مخالف امیدوار چیلنج نہیں کرتا تھا تو کاغذات منظور ہو جاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسمبلیوں میں 70 فیصد ارکان ایسے بیٹھے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ آج بھی آئین کی دفعہ62 موجود ہے مگر وفاقی کابینہ میں 16/ایسے وزراء ہیں جو ٹیکس چوری اور کرپشن میں ملوث پائے گئے یا جنہیں ایسے الزامات کا سامنا ہے۔ اسی طرح صدر پاکستان بھی سنگین ترین الزامات کی زد میں رہے۔50/ارکان پارلیمینٹ کے پاس جعلی ڈگریاں پائی گئیں۔ کئی ارکان دہری شہریت کے باوجود4 سال تک سیٹوں پر براجمان رہے آخر کار کچھ کو نااہل قرار دینا پڑا اور کچھ خود مستعفی ہوگئے ۔ جعلی ڈگری والوں نے تو قانون، جمہوریت اور پورے نظام کا مذاق اڑایا پھر وہ دوبارہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آگئے اور جعلی ڈگری والے 32کیسز ابھی تک زیر التوا ہیں۔ بدقسمتی سے انتخابی عذر داریاں نمٹانے کا موجودہ نظام بُری طرح ناکام ہے کیونکہ مقررہ مدت میں 90 فیصد کیسز کا فیصلہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اب دیکھ لیجئے کہ 2008ء کے الیکشن میں انتخابی عذر داریوں کے 253کیسز تھے جن میں سے ابھی تک صرف 60کیس نمٹائے جا سکے ہیں اور باقی ارکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر اب تو آئین کے آرٹیکل 62/اور 63کے معیار کے مطابق پرکھنے کیلئے تمام متعلقہ اداروں سے کوائف چیک کرانا پڑیں گے کہ یہ ٹیکس نادہندہ تو نہیں، انہوں نے یوٹیلٹی بل ادا کئے ہوئے ہیں۔کیا انہوں نے بنکوں سے اتنا قرضہ تو نہیں لیا جو قانون کی زد میں آتے ہوں ۔ نیب، ایف آئی اے، پولیس یا دیگر کسی ادارے میں ان کے خلاف کوئی کیس تو نہیں، یہ سب کچھ جاننا تو اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی۔ گو الیکشن کمیشن نے اپنے ایک اجلاس میں30 دنوں میں امیدواروں کی سکروٹنی والی شق کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ اپنے اجلاس میں اس کی منظوری بھی دی ہے مگر کیا اس کے پاس اتنی زیادہ مین پاور اور اسباب موجود ہیں کہ وہ ازخود آٹھ ہزار کے قریب امیدواروں کی30دنوں میں مکمل چھان بین کر سکے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ سب سے بڑا سوال اٹھایا جائے گا کہ جو لوگ آئین کی شق 62/اور 63 کے معیار پر امیدواروں کی اہلیت چیک کر رہے ہیں کیا وہ خود ان شقوں پر پورا اترتے ہیں یعنی کیا گندگی کو گندے پانی سے صاف کیا جا سکتا ہے؟ دوسرا اہم سوال جو اٹھایا جائے گا کہ اگر فرض کریں کہ تیس دنوں میں اہلیت چیک ہو جاتی ہے تو پھر قانون کی رو سے تو امیدوار اس کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر سکتا ہے تو کیا حتمی فیصلہ آنے تک اس حلقے میں الیکشن ممکن ہو سکے گا؟الیکشن کمیشن نے تو23 جنوری 2013ء کو انتخابی اصلاحات بل کے مسودے کی بھی منظوری دی ہے جس کے مطابق انتخابات جیتنے والے امیدواروں کیلئے کاسٹ ہونے والے کل ووٹوں کا50 فیصد حاصل کرنا ضروری ہے جبکہ کاسٹ ہونے والے ووٹوں کے25 فیصد سے کم حاصل کرنے والے امیدواروں کی ضمانت ضبط کر لی جائے گی۔ انتخابات کے دوران کرپشن کرنے، جعلی ووٹ ڈالنے، پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرنے، انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے، بیلٹ باکس چرانے پر ایک لاکھ جرمانہ اور تین سال کی سز اہوگی۔ بظاہر دیکھاجائے تو یہ کوئی انوکھی چیزیں نہیں بلکہ دنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت ہے یا بادشاہت بھی ہے تو امیدواروں کی اہلیت کا ایک معیار مقرر ہے ۔ برطانیہ میں صرف ان لوگوں کو رکن پارلیمینٹ بننے کی اجازت ہے جن کے سیاسی دامن پر کوئی داغ نہ ہو۔ امریکہ میں ایوان زیریں اور بالا کا کوئی بھی رکن اخلاقی یا معاشی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ کینیڈا میں بھی انتہائی سخت قوانین ہیں، پاکستان میں الیکشن قوانین میں مزید اصلاحات کے بل کا جو مسودہ الیکشن کمیشن نے منظور کیا ہے وہ پارلیمینٹ کو بھجوایا جائے گا۔ پارلیمینٹ کا اجلاس 28جنوری کو بلانے کی ہدایت بھی ہو چکی ہے جبکہ اسلام آباد ڈیکلریشن پر عملدرآمد کے حوالے سے طریقہ کار طے کرنے کیلئے حکمران پارٹی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان 27 جنوری کو میٹنگ ہونا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے پر عملدرآمدکیلئے عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976ء کے آرٹیکل 11میں ترمیم ضروری ہے۔ الیکشن کو مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار بنانے کیلئے نہ صرف تمام اداروں کو الیکشن کے انعقاد تک الیکشن کمیشن کے تابع کرنا ضروری ہے بلکہ چیف الیکشن کمشنر کو اہلیت چیک کرنے کا قطعی اختیار بھی دینا چاہئے۔ جب تک الیکشن کمیشن کو ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں دی جاتی اور الیکشن کمیشن کا تجویز کردہ اصلاحات کا بل پارلیمینٹ منظور نہیں کرتی یا اسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون نہیں بنایا جاتا تو تمام معاہدے ، قوانین اور آئین کے آرٹیکل 62/اور63 دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور پھر کبھی بھی اچھے لوگ منتخب نہیں ہو پائیں گے۔ موروثی سیاست ہی عوام کا مقدرہوگی لیکن اگر الیکشن کمیشن کو واقعتا اہلیت چیک کرنے کااختیار مل گیا تو آئندہ الیکشن کے بعد ایک نیا سیاسی ڈھانچہ ہمارے سامنے ہو گا۔ کیا ایسا ہونے سے آئندہ الیکشن بروقت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں؟کیا پھر نئی پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد گارنٹر سامنے آئیں گے؟
تازہ ترین