کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کی وفاقی حکومت کی درخواست مسترد کردی ہے ،پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کی ذمہ داری اب وفاقی حکومت کو اپنے کاندھوں پر اٹھانی ہوگی، عدالتی فیصلے کے بعد پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن پرویز مشرف اگر چاہیں بھی تو عدالت کے فیصلے کے باوجود آج رات ملک سے باہر نہیں جاسکتے کیونکہ وزارت داخلہ کے مطابق انہیں ابھی تک عدالت کا حکم نہیں ملا ہے، عدالت کا مکمل آرڈر ملنے کے بعد ہی وزارت داخلہ فیصلہ کرے گی کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنا ہے یا نہیں، پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے یا شامل رکھنے کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں پرویز مشرف کے حوالے سے عدالتی حکم موصول ہوگیا ہے اور اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کو بریف بھی کردیا ہے، وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے ابھی تک وزارت داخلہ کو اس حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں عدالت کی جانب سے اس وقت اٹارنی جنرل کو سخت جملوں کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے عدالت سے کہا کہ پرویز مشرف کا نام عدالتی حکم پر ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا، اگر عدالت کہے گی تو نام نکال دیا جائے گا، جس کا اٹارنی جنرل کو انتہائی سخت جواب سننا پڑا، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ کام خود کریں، اپنی ذمہ داری خود لیں، ہمارے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کریں۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے وکیل سینیٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ عدالت نے پرویز مشرف کے حوالے سے فیصلہ دیدیا ہے اب وزارت داخلہ کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، وزارت داخلہ نے اگر پرویز مشرف کو بیرون ملک نہیں جانے دیا تو توہین عدالت ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف نے حکومت کے فیصلے سے قبل بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا اور انہیں نہ جانے دیا گیا تو فروغ نسیم کے مطابق توہین عدالت ہوگی، اب ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور دیکھنا ہے کہ کیا جنرل پرویز مشرف وزارت داخلہ کے اس حکم کا انتظار کریں گے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے یا پھر اس سے پہلے اپنے وکیل کے موقف کے مطابق سفر کریں گے، اگر پرویز مشرف کو روک دیا گیا تو کیا حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کا تنازع وزیراعظم نواز شریف کی پچھلے سترہ سال کی سیاست سے جڑا ہے، یہ تنازع سترہ سال پرانا ہے، اس تنازع کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات ایک بار نہیں کئی بار تنازع کی طرف بڑھے ہیں بلکہ ایک دفعہ تو تاریخی مینڈیٹ لینے والے وزیراعظم نواز شریف کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل سے پیچھے ہٹتی دکھائی نہیں دے رہی ہے، بدھ کو سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو بحال کرنے کا حکم دیدیا جس کے بعد پرویز مشرف کے بیرون ملک روانہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے لیکن آج بھی اٹارنی جنرل نے آسانی سے اس معاملہ کو نہیں جانے دیا، اس معاملہ میں کلیدی کردار اب حکومتی فیصلے کا ہوگا، پرویز مشرف بھی کئی بار یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ وہ ملک سے باہر جائیں گے تو واپس آئیں گے اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کریں گے، نواز شریف کیلئے اب یہ اہم فیصلہ ہے کہ وہ تنازع آگے بڑھاتے ہیں یا پھر ان کی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے جو دعوے کرتی ہے اس ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملہ کو جانے دیتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں اس اہم فیصلے اور اس کے دو طرفہ اثرات کیا ہوں گے جب پرویز مشرف ماضی میں ضرور مسائل کا باعث بنے مگر فوج کی اعلیٰ قیادت آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف کی جو حالیہ دوروں میں تصاویر سامنے آتی رہی ہیں اس حوالے سے یہی تجزیے دیئے جاتے رہے ہیں کہ اعلیٰ فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان معاملات بہتر ہیں، آرمی چیف اور وزیراعظم دونوں مختلف دوروں میں ساتھ گئے ہیں۔ لندن منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ لندن پولیس پر دباؤ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات انسداد دہشتگردی قانون کے تحت نہیں بلکہ کرائم ایکٹ 2002ء کے تحت کی جائے، جس کے تحت یہ معاملہ فائنانشل ہوسکتا ہے، منی لانڈرنگ میں یہ معاملہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کتنے پیسے رکھے، یہ پیسے آپ کی استطاعت سے زیادہ تھے ، آپ نے یہ پیسے کمائے نہیں اور اس پر ٹیکس نہیں دیا اور یہ پیسے کہاں سے آئے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ 2012ء میں شروع ہونے والے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات پولیس کا انسداد دہشتگردی کا محکمہ کررہا ہے، ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ سیاسی دباؤ اور مختلف لابیز کی وجہ سے ان تحقیقات میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے، جب ایک دوسرے ملک بھارت کی طرف سے پاکستان کی سیاسی جماعت کو فنڈنگ کا الزام ہے تو کون سی لابیز سرگرم ہوگئی ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ برطانوی پولیس کے انسداد دہشتگردی محکمہ کے تحت ماضی میں ہونے والے چند کیسز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2008ء میں برطانوی عدالت نے چھ افراد کو دہشتگردی کی معاونت کے جرم میں انسداد دہشتگردی کے تحت سزا سنائی تھی، ان افراد پر پولیس نے یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے غیرملک میں دہشتگردی کو فروغ دینے کی بات کی تھی اور غیرملکی فورسز پر حملہ کیلئے لوگوں کو اکسایا تھا۔ اسی طرح 2014ء میں خاتون کو اس کے ایک سال کے بچے کے ساتھ شام میں داعش سے منسلک ہونے کے شک پر دہشتگردی کی دفعات پر سزا سنائی گئی ، ایک شخص کو صرف اس لئے انسداد دہشتگردی قانون کے تحت سزا سنائی گئی کہ اس نے اپنے فیس بک پروفائل پر ایک تصویر بھیجی تھی، 2010ء میں پاکستانی پولیس افسر کی برطانیہ میں پناہ کی درخواست پر جج نے فیصلے میں مانا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے 200سے زائد پولیس اہلکاروں کا قتل کیا تھا جو ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں کھڑے ہوئے تھے، ایک اور پناہ کے کیس میں برطانوی جج نے آبزرویشن دی کہ ایسے غالب شواہد موجود ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ دہائیوں سے اپنے مخالفین اور پارٹی سے منحرف اور پارٹی پر تنقید کرنے والے اپنے ہی کارکنان کیخلاف تشدد کا استعمال کرتی رہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف 2012ء سے انسداد دہشتگردی محکمہ منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کررہا ہے، اس کیس کی تحقیقات انسداد دہشتگردی قانون کے بجائے عام مجرمانہ قانون کے تحت کرنے کیلئے دباؤ ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کا موقف ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کی تحقیقات پر کسی بھی قسم کے دباؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ایم کیوا یم پر را سے تعلقات، اسلحہ کی خریداری اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں، اس حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی پر چوبیس سال کے الزامات اور دعوؤں کا بوجھ ہے جسے اس نے سچا یا جھوٹا ثابت کرنا ہے،متحدہ قومی موومنٹ پر بھارت سے لی گئی فنڈنگ کے الزامات اور ان سے منسلک تحقیقات میں سرفراز مرچنٹ کی جانب سے ہمیں دیئے گئے انٹرویو اور ہمارے ہی پروگرام میں گزشتہ ایک سال میں دکھائی جانے والی اسلحہ کی فہرست اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ سے متعلق دستاویزات دکھانے اور اس کے جواب میں وزارت داخلہ کی جانب سے بنائی گئی ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کے بعد اس معاملہ میں تیزی آتی جارہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں چار فریق ہیں، بھارت اس میں بہت اہم فریق ہے اور اس کا ایک کردار ہے، اس کی طرف سے اس معاملہ پر ایک ہی بیان آیا جو بہت دلچسپ ہے، بی بی سی نے گزشتہ سال ایک ڈاکومنٹری میں ایم کیو ایم کی بھارتی فنڈنگ کا ذکر کیا، اس کے علاوہ برطانوی صحافی اون بینٹ جونز نے ایم کیوا یم کو دہشتگرد تنظیم تک قرار دیا، پھر گزشتہ سال یکم جولائی کو ہم نے آپ کے سامنے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی وہ دستاویز رکھیں جس میں طارق میر اور محمد انور نے بقول اسکاٹ لینڈ یارڈ یہ اعتراف کیا کہ وہ بھارت سے فنڈنگ لیتے ہیں، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اس دستاویز کی تصدیق بھی کی، ہم نے اپنے پروگرام میں ایک اور دستاویز بھی آپ کے سامنے رکھی تھیں جس میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کوا یم کیوا یم کے قائد کے گھر سے اسلحہ کی ایک فہرست ملی تھی، 29جون کو ہم نے ایم کیوا یم کے رہنما محمد انور سے بھی سوال کیا تھا، ہمارے پروگرام میں سرفراز مرچنٹ نے رواں ماہ تصدیق کی کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کے دوران انہیں اسلحہ کی وہ فہرست دکھائی اور ان سے پوچھا کہ کیا اس لکھائی کو پہچانتے ہو اور یہ بھی بتایا کہ یہ ایک ہی فہرست نہیں ہے ہمارے پاس بہت سی ایسی فہرستیں ہیں جو الطاف حسین کے گھر سے ملیں اور اسلحہ کی فہرستیں ہیں، کتنا خریدا گیا ،کہاں سے خریدا گیا اور کس کرنسی میں خریدا گیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پروگرام میں گزشتہ سال جون سے لے کر اب تک بتائے جانے والے حقائق اور دکھائی جانے والی اہم دستاویزات جن کا اب ہر جگہ ذکر ہے، جن کے اوپر کمیٹی بھی بن گئی یہ تمام چیزیں ایک طرف رکھیں اور صرف برطانیہ کی حد تک بھی اگر بات کریں تو اس ساری کہانی میں چار فریق ہیں، بھارت، متحدہ قومی موومنٹ، برطانوی پولیس ایجنسی اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ۔ جیو توا یک پاکستانی چینل ہیں مگر کیا کبھی بھارت نے بی بی سی کی ڈاکومنٹری اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی دستاویز میں اپنے اوپر لگنے والے سنگین الزامات کے بعد بی بی سی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کیخلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کی، کیا بھارت کی طرف سے بی بی سی یا اسکاٹ لینڈ یارڈ کیخلاف کوئی بیان بھی آیا، نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ یہ تمام حقائق سامنے آنے کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنا دفاع کرنے یا صفائی دینے یا بی بی سی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کو جواب دینے کے بجائے پاکستان پر چڑھائی کی اور کہا کہ پڑوسیوں پر الزام لگا کر اپنی گورننس کی خامیوں کو نہیں چھپایا جاسکتا ہے، یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت پرا لزام نہ تو پاکستان نے لگایا تھا اور نہ ہی ڈاکومنٹری کسی پاکستانی چینل نے بنائی یا چلائی تھی مگر بھارت آج تک اپنے اوپر لگائے ان سنگین الزامات پر بی بی سی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کیخلاف خاموش ہے، اس اسکاٹ لینڈ یارڈ کیخلاف جس نے اس ڈاکومنٹ کی تصدیق کی کہ محمد انورا ور طارق میر نے کہا ہے کہ ہمیں فنڈنگ بھارت سے ملتی ہے، اس اہم معاملہ میں دوسری فریق متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ کیا ایم کیو ایم نے بی بی سی یا اسکاٹ لینڈ یارڈ کیخلاف کوئی مقدمہ کیا، کیا ان کی جانب سے لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر کے باہر کوئی مظاہرہ کیا گیا، جی نہیں ،متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ہمارے پروگرام میں بتائے گئے حقائق اور دکھائی جانے والی تمام دستاویزات کی کبھی تردید کی گئی، اسلحہ کا ڈاکومنٹ دکھائے ہمیں آٹھ ماہ بیت گئے، اسکاٹ لینڈ یارڈ کا ڈاکومنٹ دکھائے آٹھ ماہ کا عرصہ ہوچکا مگر کیا کبھی تردید کی گئی، جی نہیں ایسا بھی نہیں ہوا، جس برطانوی چینل نے الزام لگایا اور جس برطانوی سیکیورٹی ادارے نے ان پر بھارتی حکومت سے فنڈنگ کا الزام لگایا اس کے خلاف بھی آج تک کچھ نہیں کیا گیا۔ اس اہم معاملہ کا تیسرا فریق اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے کیا اسکاٹ لینڈ یار ڈنے کہا کہ ان سے منسوب کی گئی وہ دستاویز غلط ہیں جس میں ایم کیو ایم کے رہنما طارق میر اور محمد انور نے اعتراف کیا کہ وہ بھارتی حکومت سے فنڈنگ لیتے ہیں، جی نہیں ان کی جانب سے اس دستاویز کی تصدیق کی گئی، اسلحہ کی دستاویز کے حوالے سے بھی آج تک تردید نہیں آئی جس کا سرفراز مرچنٹ نے آٹھ ماہ بعد ہمارے پروگرام میں کنفرم کیا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے مجھے یہ ڈاکومنٹ دکھائے تھے اور مزید ڈاکومنٹ کا کہا تھا، برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے ایم کیوا یم پر الزام لگائے اور شدید تنقید کی لیکن اس کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ نے نہ تو ان کے گھر کے باہر احتجاج کیا اور نہ ہی ان کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کی، پھر رواں ماہ تین مارچ کے بعد سے مصطفی کمال اور رضا ہارون کی جانب سے اپنے سابق قائد پر را سے تعلقات کے الزامات لگائے گئے، ان الزامات کی بھی متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ایک بار بھی تردید نہیں آئی کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ سے منسوب یہ سارے الزامات غلط ہیں، بہرحال اب ایف آئی اے ان سارے الزامات کی تحقیقات کررہی ہے، سرفراز مرچنٹ سے رابطے ہورہے ہیں، ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر شاہد حیات نے ایم کیو ایم سے ناراض ہو کر الگ ہونے والے رہنماؤں مصطفی کمال، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر سے بھی ملاقات کی ہے جبکہ آج روزنامہ جنگ میں شائع ایک خبر میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو پاکستان میں بھارت کی دہشتگرد سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز میں بھی را اور ایم کیو ایم کے تعلقات کی بات کی گئی تھی، ایم کیو ایم پر سالہا سال سے لگنے والے یہ الزامات کئی مرتبہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بھی لگائے گئے اور کچھ سیکیورٹی عہدیدار کھلم کھلا الزام لگاتے رہے، یہ الزام گزشتہ چوبیس برس سے متحدہ کا پیچھا کررہے ہیں لیکن اب تحقیقات کی بات فائنلی آئی ہے، ہمارے پروگرام میں کیے گئے ایک انٹرویو کے بعد آئی ہے تو ایف آئی اے چند افراد سے رابطے کررہی ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے، چوبیس سالہ ذمہ داری ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کے برعکس ان الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی جہاں اس الزام سے چھٹکارا متحدہ کیلئے امتحان ہے وہیں اس الزام کو ثابت کرنا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی پر چوبیس سال کے الزامات اور دعوؤں کا بوجھ ہے، جسے اس نے سچا یا جھوٹا ثابت کرنا ہے، یا تو متحدہ کے حق میں فیصلہ دینا ہے یا پھر متحدہ کے خلاف فیصلہ دینا ہے۔ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپ کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو ہرا کر پہلے ہی میچ میں جیت کا کھاتہ کھول لیا، قوم اپنے بیٹسمینوں اور باؤلرز سے انڈیا کے خلاف بھی ایسی ہی کارکردگی مانگ رہی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ای سی ایل میں پرویز مشرف کا نام شامل رکھنے کے معاملہ میں گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے، سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے تو نکال دیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے باہر جانے پر پابندی لگانا چاہے تو لگاسکتی ہے، پرویز مشرف کے باہر جانے ان کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوں گے۔ امجد شعیب نے کہا کہ میں پرویز مشرف کو اچھی طرح جانتا ہوں، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پرویز مشرف بیمار ہیں، اگر وہ علاج کیلئے باہر گئے اور یہ کہہ کر گئے کہ وہ واپس آئیں گے تو ضرور واپس آئیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کا معاملہ حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف کا باعث بھی بن سکتا ہے، نواز شریف دشمنی کو پالتے ہیں، ان کے اندر سے آسانی سے کینہ نہیں جاتا ہے، نواز شریف پانچ سال اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے جبکہ عوام اپنے مسائل کا رونا روتے تھے، نواز شریف نے آزاد کشمیر الیکشن مہم میں بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف رونا روتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں اس لحاظ سے نواز شریف کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا کہ ان کا مقدمہ نہیں آگے چلنے دیا تھا۔ امجد شعیب نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ ایمرجنسی لگانے پر نہیں بارہ اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء پر بنتا تھا لیکن اس کی بات کوئی نہیں کررہاہے، حکومت اس ایمرجنسی پر مقدمہ بنارہی ہے جس میں سویلین حکومت ان کے ساتھ تھی، پرویز مشرف کے وزیر قانون جنہوں نے یہ سب ڈرافٹ کیا تھا وہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ نمائندہ جیو نیوز لندن مرتضیٰ علی شاہ نے کہا کہ برطانوی دفتر خارجہ میں جو ڈپلومیٹس پاکستان سیکشن کو دیکھتے ہیں ان کی ایڈوائس پر پولیس نے ابھی تک منی لانڈرنگ کیس میں انسداد دہشتگردی کا قانون استعمال نہیں کیا ہے، پاکستان میں برٹش ہائی کمیشن کے ڈپلومیٹک سیکشن کے لوگوں نے بھی برطانوی فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس کو ایڈوائس دی ہے کہ اس کیس میں پروسیڈ آف کرائم ایکٹ 2002ء کو استعمال کیا جائے، یہ وہ جنرل لاء ہے جو صرف کرمنل انکوائریز کیلئے استعمال ہوتا ہے، ڈپلومیٹس کے مشورے اور مداخلت کے بعد اس وقت تک انسداد دہشتگردی قانون کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری انسداد دہشتگردی قانون کے تحت ہوگی تو یہ سیدھا سا قانون ہے کہ ایک دم یہاں پر چارجز بھی ہوں گے، پراسیکیوشن بھی ہوگی اور براہ راست جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ جتنے لوگ اس میں ملوث ہیں انہیں نہ صرف دہشتگرد قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی پراپرٹی اور پیسے کو ٹیررسٹ منی قراردیا جاسکتا ہے، مختلف سیاسی حلقے جو اس کیس میں انوالو ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کیسز کا ایسا نتیجہ آئے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت نے کہا کہ میں نے صبح شاہد آفریدی کو میسیج کیا تھا کہ آج آپ اس طرح بیٹنگ کیجئے گا جس طرح اشتہاروں میں کرتے ہیں۔