• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں اس سے پہلے بھی آئین اور جمہوریت پر بڑے برے دن آئے، اس حد تک کہ مارشل لا لگتے رہے مگر یہ سب فوجی حکومتوں میں کیا جاتا تھا۔ اس وقت تو مارشل لا نہیں، اس وقت ایک سویلین انتخابات میں منتخب ہو کر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد آئین کے تحت حلف اٹھا کر وزیراعظم بنے ہیں مگر انہوں نے چند دن پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو بیان دیا ہے اس کے بعد یہ تاثر ملا ہے کہ اب عمران خان خود ملک کے آمر مطلق ہیں اور وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں اور جو چاہیں اقدامات کر سکتے ہیں۔

اب میں حوالے کے طور پر انہوں نے پیر کو جو کلمات کہے ہیں وہ یہاں پیش کر رہا ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بشمول آصف زرداری گرفتار ممبران کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوں گے اور چوروں کو اسمبلی میں تقریر کرنے نہیں دیں گے جبکہ وزیر اعظم کی اپنی جماعت کے پنجاب کے صوبائی وزیر جو فریال تالپور کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے ان کے پروڈکشن آرڈرز پنجاب اسمبلی کے اسپیکر جاری کرچکے ہیںجس کو تو وزیر اعظم نے نہیں روکا۔کیا یہ دہرا معیار نہیں؟وہ اس سے پہلے بھی اپوزیشن کے سارے ممبران کو چور اور لٹیرے کہہ کر پکارتے تھے ‘ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’اتحادی اکٹھے رہتے ہیں یا نہیں میں اکیلے آیا تھا اور اکیلا مقابلہ کروں گا‘ اپنے مخالفین کو اس سے پہلے بھی چور اور ڈاکو کہتا آیا ہوں‘ وزیر اعظم ، بیرون ملک دوروں میں وہاں کی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے خطاب کرتے وقت اپنے ملک کے اپوزیشن رہنمائوں کو ڈاکو اور لٹیرے کہتے ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے قانون کے تحت جب تک عدلیہ کسی کو چور اور ڈاکو ڈکلیئر نہ کرے کوئی ان کو چور اور ڈاکو نہیں کہہ سکتا۔ تو کیا ہمارے وزیر اعظم خود کو عدلیہ سے بالاتر سمجھتے ہیں جو عدالت کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر دوسروں کو ڈاکو‘ چور اور لٹیرے قراردے رہے ہیں‘ جب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا تھا تو پی ٹی آئی کے ممبران اپوزیشن ایم این ایز‘ خاص طور پر بلاول بھٹو کو بولنے نہیں دے رہے تھے‘ اس وقت اسمبلی میں بیٹھے ہوئے وزیر اعظم کی جسمانی حرکات قابل دید تھیں‘ وہ اس وقت خوشی میں ادھر اور ادھر ہاتھ جس طرح ہلا رہے تھے اور سائیڈ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے ممبران سے باتیں کرتے وقت بڑے بڑے قہقہے لگاتے ہوئے نظر آرہے تھے ٹی وی یہ سب کچھ دکھا رہا تھا۔ وزیر اعظم کی ان حرکات کے بعد پی ٹی آئی کے دیگر ایم این ایز کی حرکات کا کیا ذکر کریں ؟مگر اس مرحلے پرکچھ دیگر حوالے دیئے بغیر چارہ نہیں۔ انہی دنوں اخباری اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری جو اس سے پہلے اپوزیشن کے خلاف اپنے بیانات کے ذریعے بدنام ہوچکے تھے انہوں نے ایک سینئر صحافی کو طمانچہ مار دیا‘ ایسا واقعہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم اس کا سخت نوٹس لیتے اوراسے پارٹی سے ہی نکال دیتے مگر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے فواد چوہدری کے اس ’’کارنامہ پر انہیںشاباش دی‘‘ بہرحال یہ واقعہ ملک کے سارے صحافیوں کے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ سنبھل جائو‘ ایک دوسرا واقعہ بھی کم افسوسناک نہیں۔ پاکستان کی موجودہ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ جمعرات کو پی ایم ایل (ن) کی رہنما مریم نواز کی طرف سے ان پر کی گئی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’راج کماری کنیزوں کے جھرمٹ میں مجھے لکار رہی تھیں‘‘ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ! کیا سینئر سیاستدانوں کو اپنے مخالفوں کے بارے میں ایسی گری ہوئی زبان استعمال کرنی چاہئے؟ اس طرح کے بیانات جاری کرکے ملک کے سیاسی کلچر کو مزید گندا کیا جارہا ہے جبکہ حکمران پارٹی ملک کے سیاسی کلچر کو گندا کرنے میں اب تک اپنا بھرپور کردار پہلے ہی ادا کرچکی ہے۔ کیا وزیر اعظم کا یہ بیان کہ بشمول آصف زرداری کسی بھی قیدی ممبر کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا جائے گا اسمبلی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں ہے؟ جبکہ اسمبلی قوانین کے مطابق کسی بھی قیدی ممبر کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتا ہے‘ آصف زرداری کے لئے اسپیکر نے اپوزیشن ممبران کے مطالبات کے باوجود پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے۔ یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ اسپیکر کو یہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے وزیر اعظم نے روکا۔ علاوہ ازیں ایک طرف وزیر اعظم کے کہنے پر سرکاری ممبران جس طرح اسمبلی میں اپوزیشن کے ممبران کو بولنے نہیں دے رہے ہیں اور شور شرابہ کرکے اپوزیشن کو اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ خاص طور پر بجٹ کی منظوری کے مرحلے پر اپوزیشن کے ممبران کو اتنا مجبور کیا جائے کہ وہ اس وقت بھی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوجائیں‘ اس طرح سرکاری پارٹی اکیلے بجٹ منظور کرلے مگر اب تو حکومت کی ایک اتحادی پارٹی جس کے سربراہ سردار اختر مینگل ہیںوہ بھی اپنے مطالبات نہ مانے جانے کے نتیجے میں بجٹ کی منظوری کے سلسلے میں حکومتی پارٹی کی حمایت سے ہاتھ اٹھانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔اس طرح کی وارننگ ایم کیو ایم نے بھی دی ہے ۔ عمران خان کے تازہ بیان کی روشنی میں کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے میں اکیلا آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ یعنی عمران خان کو کسی اور گروپ کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے تو کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ اب عمران خان اکیلے ملک پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہے تو انہیں کس کی حمایت حاصل ہے اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے۔

تازہ ترین