شہیدِ پاکستان، حکیم محمد سعید ہمہ جہت شخصیت کے حامل مایہ ناز طبیب تھے، انہوں نےوطن عزیز کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اُن کی شخصیت کا ہر پہلو اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً طبِ یونانی کے حوالے سے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اُن کی بیش بہا خدمات کوتو نظر اندازکیا ہی نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونی ورسٹی اُن کے قائم کردہ معروف ادارے ہیں۔ حکیم محمد سعید ہر قسم کے مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصّب سے پاک ایک مثالی پاکستانی تھے، جنہوں نے قوم کا ذہن بدلنے، مثبت سوچ کی آب یاری کے لیے جہدِ مسلسل کی۔ اس ضمن میں ’’تحریکِ آوازِ اخلاق‘‘ اور ’’شامِ ہمدرد‘‘ کا آغاز کیا، جس کے تحت ملک کے دانش وروں کے فکر انگیز خیالات کو اِبلاغ دیتے رہے۔ ان کا معروف قول ’’پاکستان سےمحبت کرو، پاکستان کی تعمیر کرو‘‘ ایک ایسی ترغیب ہے، جس میں پاکستان کی بقا، سلامتی، ترقی اور عروج کا راز پنہاں ہے، لیکن افسوس،ملک کے نوجوانوں، بچّوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بیش بہا خدمات انجام دینے، مدینۃ الحکمہ تعمیر کرنے والے اس قدآور انسان کو 17اکتوبر 1998ء کو کراچی میں دورانِ خدمات شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد اُن کی اکلوتی صاحب زادی، سعدیہ راشد ان کے مشن و مقصد کو بہ حُسن و خوبی آگے بڑھارہی ہیں۔محترمہ سعدیہ راشد ’’ہمدرد پاکستان‘‘ کی چیئرپرسن اور جامعہ ہمدرد کی چانسلر ہیں۔ وہ 1970ء میں بیرسٹر راشد سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اُن کی تین بیٹیاں ہیں۔ پہلی بیٹی ماہِ نیم ماہ ہیں، جنہیں پیار سے سب ماہم کہتے ہیں، اُن سے چھوٹی آمنہ اورپھر فاطمۃ الزہرا ہیں۔ آمنہ مُلک سے باہر، جب کہ ماہم اور فاطمہ یہیں مقیم ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک طویل نشست میں سعدیہ راشد سے جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے کافی تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔
س:خاندانی پس منظر، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میں اپنے والد حکیم محمد سعید شہید کی واحد اولاد ہوں۔ والدصاحب کہتے تھے کہ ہم کاشغرسے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد کاشغر سے ہجرت کرکے پہلے پشاور پہنچے، وہاں سے ملتان اور پھر ملتان سے دہلی گئے۔ پھر جب تقسیمِ ہندوستان کے نتیجے میں ہم کراچی آئے، تو والد صاحب نے 12روپے سے مطب شروع کیا۔ ہجرت سے قبل ہندوستان میں ہمارے دادا نے 1906ء میں ’’ہمدرد مطب‘‘ کا آغاز کیا تھا، جب ان کا انتقال ہوا، تو حکیم محمد سعید محض دو برس کے اور اُن کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید تیرہ چودہ برس کے تھے۔ ان کے بعد میری دادی رابعہ بیگم مرحومہ نے ’’ہمدرد‘‘ کی باگ ڈور سنبھال کر ثابت کردیا کہ ایک عورت میں بھی بہترین انتظامی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں،بس اُنھیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
س: والدین پاکستان کب اور کیسے پہنچے؟
ج: تقسیمِ ہند کے پانچ ماہ بعد جنوری 1948ء میں دہلی سے ہجرت کے بعد ہم شکارپور کالونی، کراچی (مزارقائد کے قریب) جس گھر میں آئے تھے، آج تک وہیں مقیم ہیں۔ اس گھر کے علاوہ حکیم صاحب نے نہ کوئی دوسرا گھر بنایا، نہ کوئی پلاٹ لیا اور نہ ہی کوئی زمین خریدی۔ مگر’’ مدینۃ الحکمہ‘‘ کے نام سے ایک شہر ضرور بسایا۔ حالاں کہ بھارت میں ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر محض پاکستان کی محبت میں آئے تھے، بھائی بہن سب وہیں رہ گئے تھے، جو اگرچہ بعد میں آگئے، مگر میری دادی اور تایا ابو وہیں رہے۔ اگرچہ میرے تایاساری زندگی بھارت اور والد پاکستان میں رہے، لیکن ان دونوں میں جس قدرشدید محبت تھی، وہ میں نے کم ہی بھائیوں میں دیکھی ہے۔
س: اپنے سنِ پیدایش اور جائے پیدایش سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میری پیدایش 1946ء میں دہلی میں ہوئی۔ مجھے ایک دفعہ حکیم صاحب سیتارام بازار،پرانی دہلی میں وہ جگہ دکھانے لے گئے تھے، جس گھر میں، مَیں پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں بچّوں کی ولادت بڑے بڑے اسپتالوں میں نہیں، گھروں ہی میں ہوتی تھی۔حکیم صاحب نے بتایا کہ وہ بھی اُسی گھر میں پیدا ہوئے تھےا اور میری والدہ بھی۔ ہم گو کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہاں گئے تھے، لیکن وہاں جو لوگ آباد تھے، وہ بہت اچھے اخلاق و کردار کے حامل تھے۔ انہوں نے ہم سے بہت خلوص و اپنائیت کا برتائو کیا، جب انہیں پتا چلا کہ ہم اپنی جائے پیدایش دیکھنے آئے ہیں، تو کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھے طریقے سے ہمیں وہ پورا گھر دکھایا، جہاں ہم پیدا ہوئے تھے۔ دراصل میری والدہ اور والد آپس میں خالہ زاد تھے۔ یعنی میری نانی اور دادی دونوں سگی بہنیں تھیں۔
س:آپ کے والد حکیم محمد سعید شہید مُلک کے معروف حکیم، سچّے کھرے، بااصول مُلک و قوم کا درد رکھنے والے محب وطن اور دیانت دار انسان تھے، کچھ ان کے بارے میں بتائیے۔ نیز، حکیم صاحب کے زیرِ تربیت آپ کے بچپن کے دن کیسے گزرے؟
ج: بچپن میں انہوں نے مجھے قدرے سختی سے پالا۔ حکیم صاحب اپنے اصولوں کے پابند اور سخت مزاج تھے، ہر کام خود اور وقت پر کرنے کے عادی تھے۔ ان کے برعکس ہماری والدہ انتہائی نرم اور دھیمی طبیعت کی مالک تھیں۔ والد صاحب نے کبھی روایتی پیارمحبت نہیں جتایا۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی میں ان کی گود میں بیٹھی ہوں۔ شفقت کا برتائو تو کرتے تھے، مگر گلے لگانا، پیار کرنا وغیرہ ذرا کم ہی کرتے تھے۔ مَیں جب تھوڑی بڑی ہوئی، تو خود ہی ان سے لپٹ جاتی تھی، لیکن جب میری بیٹیاں پیدا ہوئیں، تو اُن کی طبیعت میں خاصی نرمی آگئی، پھر تو حکیم صاحب، وہ حکیم صاحب ہی نہ رہے۔ کہتے ہیں ناں کہ اصل سے سود زیادہ پیارا ہوتا ہے، تو میری بچّیاں نہ صرف ان کے زیادہ قریب ہوگئیں، بلکہ وہ ان کے لاڈ اٹھانے سے لے کر نخرے تک برداشت کرنے لگے۔
س: آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟ بچپن میں کیسی طالبہ تھیں، پڑھاکو یا.....
ج: زیادہ پڑھاکو تو نہیں تھی، بس ٹھیک ہی تھی۔ جنوری 1948ء میں دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آئے،تو، میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی۔ میں نے ساری تعلیم یہیں حاصل کی۔ سینٹ جوزف اسکول سے سینئر کیمبرج کے بعد جامعہ کراچی سے عمرانیات میں ایم اے کیا۔
س: ہمدرد فائونڈیشن قومی ترقی اور فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک قومی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے، اس حوالے سے کچھ بتائیے۔ نیز، ان کی اعلیٰ اور درخشندہ روایات کو آپ کس طرح آگے بڑھارہی ہیں؟
ج:جب حکیم صاحب کی شہادت ہوئی، تو ظاہر ہے ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا، مگر الحمدللہ، ان کے جانے کے بعد نہ تو ادارہ ہمدرد کبھی بند ہوا، نہ ادارے کا کوئی کام رُکا۔ ہفتے کے روز اُن کی شہادت ہوئی اور پیر کوہمدرد کے دفاتر معمول کے مطابق کُھلے۔ کسی نے کوئی چُھٹی نہیں کی۔ اب تو یہ کہتے ہوئے بھی عجیب لگتا ہے کہ بیس سال ہوگئے، لیکن ربِ کریم کا لاکھ احسان ہے کہ آج بھی سب کچھ اسی طرح ہے۔ نونہال اسمبلی بھی اُسی طرح ہوتی ہے، ہمدرد شوریٰ بھی باقاعدگی سے ہورہی ہے، رسائل و جرائدسب باقاعدہ نکلتے ہیں۔ حکیم صاحب بہت اچھی ٹیم بنا کر گئے تھے، تو اُن کے جانے کے بعدبھی ٹیم اسی طرح کام کرتی رہی، ہمیں کسی قسم کی کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔سب نے میرا بہت ساتھ دیا۔
س: ہمدرد فائونڈیشن کا سب سے اہم حوالہ اسلامی طب و حکمت ہے، جس کے لیے حکیم محمد سعید شہید کی تحقیق اور جدوجہد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حکیم صاحب کے بعد ہمدرد فائونڈیشن، ہمدرد یونی ورسٹی اور شعبۂ طب میں تحقیق کے ضمن میں کیا کام ہورہا ہے؟
ج: ہمدرد یونی ورسٹی میں تحقیق سے متعلق بہت کام ہورہا ہے۔ مختلف شعبوں کے طلبہ بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں، ایم فِل ہورہا ہے، ریسرچ گرانٹس بھی دی جارہی ہیں۔ ہمدرد وقف میں الحمدللہ آر این ڈی کا شعبہ موجود ہے، جس کے تحت موجودہ ادویہ کے علاوہ نئی آنے والی ادویہ پر بھی مسلسل کام ہوتا ہے۔
س: حکیم محمد سعید صاحب نے قوم بالخصوص نوجوان طبقے کو ایک سلوگن ’’جاگو، جگائو‘‘ دیا۔ اس بارے میں کچھ بتائیں؟
ج:حکیم صاحب اخلاقیات، تعلیم و تربیت پہ بہت زیادہ زور دیتے تھے، ’’جاگو، جگائو‘‘ کے علاوہ ان کی ایک تحریک ’’آوازِ اخلاق‘‘ بھی تھی، جس کے ذریعے وہ قوم کے بچّوں، خصوصاً نوجوانوں کو عام فہم اور آسان زبان میں اسلامی طرزِ زندگی، ملک و ملّت اور اخلاق و کردار سے متعلق آگاہی فراہم کرتے تھے۔
س: حکیم محمد سعید شہید کی قائم کردہ ’’مدینۃ الحکمت‘‘ قومی اور عالمی شہرت کی حامل لائبریری ہے۔ اس کی مزید ترقی کے لیے آپ کے ذہن میں کیا آئیڈیاز ہیں؟ اورکیا اس ضمن میں بھی کچھ کام ہورہا ہے؟
ج: مدینۃ الحکمہ لائبریری میں موجود لاکھوں کتابوں کی مائیکرو فلمنگ کا آغاز تو حکیم صاحب کے دور ہی میں ہوگیا تھا۔ موجودہ دَور کے تقاضوں کے مطابق اب اس لائبریری کو ڈیجیٹلائز کردیا گیاہے۔ ہر سال لائبریری کے تحت ایک بُک فیئر کا انعقاد کیا جاتا ہے، مخطوطات کے حوالے سے بھی جدید دور کے مطابق کام ہورہا ہے، ہمارے پاس بہت اچھے لائبریرینز موجود ہیں، جو مدینۃ الحکمہ کو بہ حسن و خوبی چلارہے ہیں۔نیز، لائبریری میں نایاب کتب کے ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے بھی خصوصی طور پر کام ہورہا ہے۔
س: اب تک آپ کو کتنے اعزازت اور تمغے وغیرہ مل چکے ہیں؟
ج: پاکستان سے کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ تاہم، حکومتِ جاپان کی طرف سے مجھے اسی سال ایک ایوارڈ ’’آرڈر آف دی رائزنگ سن، گولڈ ریزو ود نَیک ربن‘‘ دیا گیا، جو کراچی میں مقیم جاپانی قونصل جنرل، ہز ایکسی لینسی مسٹر توشی کازواسو مورا نے شہنشاہ جاپان کی طرف سے پیش کیا۔ دراصل، مَیں جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کی پاکستان میں صدر بھی ہوں، تویہ اعزاز پاکستان اور جاپان کے تہذیبی و ثقافتی روابط بڑھانے کے سلسلے میں دیا گیا ہے اور یہ جاپان کا سب سے بڑا سول ایوارڈہے۔
س:حکیم صاحب کے ساتھ آپ کی زندگی کے کچھ یادگار، ناقابلِ فراموش لمحات؟
ج: حکیم صاحب بہت اصول پسند انسان تھے۔ یہ سن کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ اُس زمانے میں بھی ہم باقاعدگی سے فلمیں دیکھنے سنیما ہائوس جایا کرتے تھے، ہاں، مگر رات کا شو دیکھنے کی ممانعت تھی۔ ایک دن ہم اپنے بڑوں کے ساتھ رات کا شو دیکھنے کے لیے چلے گئے، تو چھے مہینے کے لیے فلم دیکھنے پر پابندی عاید کردی گئی۔ تو وہ ہماری زندگی کابڑا سبق آموز واقعہ ہے۔ ویسے حکیم صاحب کے ساتھ بچپن سے جوانی تک تعلیم و تربیت کے حوالے سے متعدد لمحات ذہن پر نقش ہیں۔ 1963ء میں پہلی بار حکیم صاحب کے ساتھ چین گئی، تو وہاں اکثر لوگ مجھے چینی ہی سمجھتے تھے۔ اس وقت میں اسکول میں پڑھتی تھی، بہت چھوٹی تھی، لیکن ان کی یہ بات مجھے آج تک یاد ہے کہ جب انہوں نے بہت سے لوگوں کے منہ سے یہ بات سنی، تو مجھ سے کہا ’’تم واقعی چینی لگتی ہو، لہٰذا یہیں رہ جائو۔‘‘ اس کےعلاوہ حکیم صاحب کے ساتھ ہر سفر ہی یادگار ہوتا تھا، جس میں تفریح کم، ٹریننگ زیادہ ہوتی تھی کہ کس طرح اٹھنا بیٹھنا ہے، کس طرح لوگوں سے بات کرنی ہے۔ وہ یہاں تک سکھاتے تھے کہ جب میز سے اُٹھیں، تو نیپکن کس طرح طے کرکے رکھنا ہے۔ اُسے اسی طرح چھوڑ کر نہیں اٹھ جانا۔ اور یہ سب وہ ہمیں دورانِ سفر ہی سکھاتے تھے۔
س:زندگی سے کیا سیکھا؟کسی کی احسان مند ہیں؟
ج:احسان تو بہت سے لوگوں کا ہے، مجھے حکیم صاحب نے ہمیشہ سکھایا کہ کسی کا احسان کبھی مت بھولنا۔ جب وہ پاکستان آئے، تو ان پر بھی بہت سے لوگوں کے احسانات تھے۔ بہت سے لوگوں نے انہیں سپورٹ کیا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کا احسان کبھی نہیں بھولنا۔ اس کے علاوہ میری والدہ بھی ایک نصیحت کرتی تھیں کہ کبھی کسی سے انتقام مت لینا۔
س:زندگی میں جوچاہا،پالیایا کوئی خواہش باقی ہے؟
ج: اللہ کا شکر ہے، اللہ نے بہت دیا۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اللہ نے عزّت بہت دی۔
س:عُمر کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟
ج: سب ہی دَور اچھے ہوتے ہیں، میں تو خود کو ابھی تک سولہ سال کا محسوس کرتی ہوں، کیوں کہ اگر ایسا نہ سوچے تو انسان کام کیسے کرے۔
س: کام یاب زندگی گزارنے کا کوئی سنہرا اصول، جو حکیم صاحب سے سیکھا ہو؟
ج: ہم نے اپنے والد سے بہت سے اصول سیکھے، جن میں سرفہرست وقت کی پابندی ہے کہ یہ ایک کام یاب زندگی کے لیے بہت بڑا اصول ہے۔
س:زندگی میں کسی اور مُلک جابسنے کا موقع ملے،تو کہاں رہنا پسند کریں گی؟
ج:اپنا مُلک سب سے اچھا ہے، اور اگر کبھی کہیں بسنے کا موقع ملے، تو مدینہ منوّرہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ مگر میری باہر کہیں جانے کی خواہش نہیں ہے۔
س:شادی سے پہلے کی زندگی بہتر ہوتی ہے یا شادی کے بعد کی؟
ج:میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے ہر انسان کا اپنا تجربہ اور نقطۂ نظر ہے۔ میری شادی سے پہلے بھی زندگی اچھی تھی اور شادی کے بعد بھی۔
س:کھانا پکانے میں دل چسپی ہے یا صرف کھاناکھانے میں؟کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بناسکتی ہیں؟
ج: کھانا پکانے میں مجھے کبھی کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ ہاں، میری امّی بہت کوشش کرتی تھیں، مگر یہ ہے کہ اب اکثر اتوار کے روز جب میں گھر پر ہوتی ہوں، تو کچھ نہ کچھ ضرور بنالیتی ہوں۔ اکثر روایتی قسم کے کھانے بنانے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن جو ہماری والدہ اور ہماری دادی، نانی بناتی تھیں، وہ مجھے نہیں آتا۔ کھانے کے حوالے سے ہماری ٹریننگ ایسی تھی کہ ہم میز پر بیٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ نہیں کھانا، وہ نہیں کھانا، جیسے آج کل بچّے کہہ دیتے ہیں، ہمارے اپنے بچّے بھی کہہ دیتے ہیں، لیکن ہمیں یہ اجازت نہیں تھی، ہم تو ہر چیز کھالیتے ہیں۔ ہم نے کھانے پینے کے حوالے سے حکیم صاحب سے بہت کچھ سیکھا، کیوں کہ وہ اکثر غیرملکی مہمانوں کو گھر پر مدعو کرتے تھے، اس دوران ہم غیر ملکیوں کے طرح طرح کے کھانوں کے ذائقے سے بھی آشنا ہوئے۔ بہت سے لوگ، بہت سے کھانے نہیں کھاتے، ہم تو چائنیز، جاپانیز، کورین ڈشز سب کھالیتے ہیں، والد صاحب کے ساتھ شمالی کوریا گئی، تو وہاں کے کھانے بھی کھائے۔
س:کس مصنّف یا شاعر کو پڑھنا پسند کرتی ہیں؟
ج: نسیم حجازی کو بہت شوق سے پڑھا، مجھے تاریخی ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن اب وقت نہیں ملتا۔ شاعری میں شاعر مشرق علّامہ اقبال کو پڑھا، حالاں کہ میں نے کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن کلاسیکی اردو ادب کا بھی بہت مطالعہ کیا۔ میر امَن دہلوی، پنڈت رتن ناتھ سرشار اور سیّد سجاد حیدر یلدرم سب کو پڑھا ہے۔
س: دینی لٹریچر کے مطالعے کے حوالے سے آج کے طلبہ کو کیا نصیحت کریں گی؟
ج: میں تو کہتی ہوں کہ قرآن شریف ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور سمجھیں، اس میں سب کچھ ہے، صرف روایتی دینی لٹریچر پر نہ جائیں، قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھیں، تو بہت کچھ حاصل ہوجائے گا۔
س: نوجوان طبقہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ اقدار سے کیوں دُور ہورہا ہے؟
ج: بچّے کی تربیت کا عمل گھر سے شروع ہوتا ہے، اگر گھر کا ماحول متوازن ہوگا، تو شخصیت میں بھی خود بہ خود توازن و ٹھہرائو آجائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ بندہ صرف دین ہی کا ہوکے رہ جائے۔ ہمیں اپنے بچّوں سے دنیا کے ہر موضوع پر بات کرنی چاہیے۔ اور کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی شخصیت بیلنس ہو۔ انہیں دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا آتا ہو۔
س:آپ کو عموماً کس بات پر غصّہ آتا ہے؟اورآئے تو ردِعمل کیا ہوتا ہے؟
ج: پہلے مجھے غصّہ نہیں آتا تھا، لیکن اب آنے لگا ہے، شاید عمر بڑھنے کے ساتھ مزاج میں کچھ جلد بازی سی آگئی ہے کہ جو کچھ کرناہے، جلدی جلدی کرلو، پتا نہیں کیوں؟ اور ایسے میں جب کوئی میرا ساتھ نہیں دیتا، تو غصّہ آجاتا ہے۔ بسا اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی غصّہ آجاتا ہے، اور کبھی بڑی بڑی باتوں پر بھی نہیں آتا۔
س:والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گی؟خصوصاً ماں کی محبت کو؟
ج: والدین کی محبت کاتو کوئی نعم البدل ہی نہیں۔ میں نے اپنے والدین کوہمیشہ شفقت و محبت کا پیکر پایا۔ ہماری امّی جان کا حال یہ تھا کہ جو ابّا جان کہہ دیتے، اُسی پر عمل پیرا ہوتیں۔ ابّا جو کہہ دیتے، امّی کہتیں، ٹھیک ہے۔ امّی جان مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں، لیکن مَیں ابّا سے زیادہ محبت کرتی تھی۔ میری والدہ کا انتقال 1981ء میں ہوا، وہ ایک گھریلو خاتون تھیں، مگر میرے والد کی کام یابی کے پیچھے ان کا بڑا ہاتھ تھا، انہوں نے ابّا کو گھر کی تمام ذمّے داریوں سے ہمیشہ مبّرا رکھا، خاندان اور گھر کو وہی سنبھالتی تھیں۔
س:کیا ہمارے معاشرے میں خواتین کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جاتا؟
ج: پہلے ہمارے معاشرے میں عورت کا کردار محدود تھا، تاہم آج وقت بدل چکا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں عورت بھی مَردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کررہی ہےاور یہ بات خوش آئند ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں عورت زندگی کے تقریباً تمام ترشعبوں، تعلیم، صحت، سیاست، کاروبار، ادب اور کھیل میں اپنا نام روشن کررہی ہے۔اور پھر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان بھی یہی ہے کہ ’’کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی، جب تک اس قوم کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلیں۔ معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جب تک اس میں خواتین کی شمولیت نہ ہو۔‘‘
س:اسپورٹس سے دل چسپی ہے؟کون سے کھیل،کھلاڑی اچھے لگتے ہیں؟
ج: مجھے کرکٹ کا بہت شوق تھا، ہم لوگ نیشنل اسٹیڈیم میں لگاتارپانچ روز جاکر ٹیسٹ میچزدیکھا کرتے تھے، میں نے اس دَور کے سارے بڑے کھلاڑیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس زمانے میں فضل محمود کا کھیل بہت اچھا ہوتا تھا، ان کی بائولنگ بہت اچھی تھی، حنیف محمد کو کھیلتے دیکھا، آسٹریلین کھلاڑیوں میں رچی بینو بہت اچھا کھیلتا تھا، انڈین کھلاڑیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہے۔
س:آپ کی کوئی انفرادیت؟ اپنی شخصیت کو کس طرح بیان کریں گی؟
ج: میں بہت سادہ مزاج ہوں۔میں نے کبھی کسی بات کو اپنا انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔
س:ایک دعا،جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟
ج: آیۃ الکرسی ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے۔
س:نوجوان نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: وقت پر سوئیں، وقت پر اٹھیں کہ وقت پر سونے، وقت پر جاگنے سے دین و دنیا دونوں اچھے رہتے ہیں۔ہم لوگوں نے جو دن کو رات اور رات کو دن بنالیا ہے، تو یہ اللہ کے نظام کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے دن کام کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی ہے، لیکن جہاں ہم نے رات کو دن اور دن کو رات سمجھ لیا، تو یہ خلافِ فطرت اور اللہ کے طے کردہ نظام سے بغاوت کے مترادف ہے۔
گاڑی، ڈرائیور ہونے کے باوجود بس میں سفر
ہم بچپن ہی سے دورانِ تعلیم بس میں اسکول آتے جاتے تھے۔ حالاں کہ ہمارے پاس گھر میں گاڑی بھی تھی، ڈرائیور بھی تھے، لیکن اس کے باوجود والد ہمیں بس میں اسکول بھیجا کرتے۔ مَیں انٹرمیڈیٹ تک بس ہی سے آتی جاتی رہی۔ میں صبح سات بجے گھر سے نکلتی تھی، لیکن اس کے باوجود میں نے کبھی اپنی ماں سے یہ نہیں سنا کہ ’’ہائے میری بچّی تھک گئی، یا میری بچّی دھوپ میں آئی ہے۔‘‘ میرے والدین نے ہماری تربیت اسی طرح کی کہ ہم ہر طرح کے اچھے، بُرے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
شوہر کی شخصیت میں بہت ٹھہرائو ہے، ہمیشہ سپورٹ کیا
میرے شوہر، راشد صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ ہم اب بھی حکیم صاحب والے گھر میں مقیم ہیں۔ شوہر وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، جس طرح کہتے ہیں ناں کہ ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ہر کام یاب عورت کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ راشد بہت مختلف شخصیت کے حامل، بے حد ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں۔ اُن کی شخصیت میں بہت ٹھہرائو ہے، جب کہ میں خاصی متحرک ہوں۔ میرا عمومی مزاج یہ ہے کہ صبح جلدی اٹھو، یہ کرلو، وہ کرلو، لیکن وہ مجھے ہمیشہ تحمّل کا درس دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے مجھے ہمیشہ بہت سپورٹ کیا، میں پورا پورا دن گھر سے باہر ہوتی ہوں، اور آج سے نہیں، جب سے میں نے حکیم صاحب کے ساتھ باقاعدہ کام کرنا شروع کیا تھا۔ ویسے تو میں حکیم صاحب کے ساتھ بچپن سے ہوں۔ اُسی وقت سے یہی روٹین ہے، لیکن انہوں نے کبھی مجھے روکا ٹوکا نہیں، ہمیشہ یہی کہا کہ ’’نہیں، ابا جان کو تمہاری بہت ضرورت ہے، تم اُن کے ساتھ رہو۔‘‘ غیر ملکی سفر میں، مَیں جب بھی حکیم صاحب کے ساتھ جاتی، تو وہی گھر میں بچّیوں کو سنبھالتے۔