• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2015میں ہونے والے ایک پول سروے کے مطابق 42فیصد امریکیوں کو یقین تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود تھے۔ صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر اسی وجہ سے جنگ مسلط کی تھی۔ اس یک طرفہ جنگ میں لاکھوں عراقیوں کو ناقابلِ بیان مشکلات کا صرف اس لئے سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکہ کی جنگجو حکومت نے غلط بیانیہ اپنے عوام کے ذہن میں اتارتے ہوئے اُنہیں یقین دلا دیا تھا کہ عراق کے جوہری اور کیمیائی ہتھیار اُن کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ عراق کو تباہ و برباد کر دینے اور ہتھیار نہ ملنے کے کئی سال بعد بھی دس میں سے چار امریکی اُسی یقین پر قائم ہیں۔ لوگ غلط یقین پر کیوں قائم رہتے ہیں؟ یقین کو جھٹلانے والی نئی معلومات سامنے آنے پر بھی لوگ اپنی سوچ میں تبدیلی کیوں نہیں لاتے؟ لیکن ioaN سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ہم جس پر یقین رکھتے ہیں وہ یقینی طو ر پر درست ہی ہے۔ ایک آن لائن رسالے، ’’فاسٹ کمپنی‘‘ کے نومبر 2018میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ’’ہم سنی سنائی بے سروپا چیزوں پر یقین کر لیتے ہیں لیکن ہم اُن کی تصدیق کے لئے خود تحقیق نہیں کرتے ہیں‘‘۔ اس کے مطابق ’’ہم کس طرح کسی یقین تک پہنچتے ہیں، اس کا دارومدار اس بات پر کہ اسے ہمارے ذہن میں کس مہارت سے اتارا جاتا ہے، نہ کہ اس پر یہ کس حد تک درست ہے۔ مجرد تصورات کی تشکیل (وہ جو ہمارے براہِ راست، عملی تجربے کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں اور جنہیں ہم تک زبان کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے) صرف انسانوں کے لئے مخصوص ہیں اور ارتقائی عمل میں ایک نئی پیش رفت ہیں‘‘۔

’’زبان کے ارتقا سے پہلے ہمارے آبائو اجداد کے یقین کا تعلق اُن چیزوں سے تھا جو وہ دیکھتے، اور جن کا اُنہیں عملی طور پر تجربہ ہوتا تھا۔ یقین کی درستی کے لئے اتنی احتیاط ہی کافی ہوتی تھی کہ ہمارے حواس تو ہمیں دھوکا نہیں دے رہے۔ ہم آنکھوں دیکھی چیز پر یقین کر لیتے ہیں۔ درحقیقت کسی دیکھی یا سنی گئی چیز پر سوال اٹھانا آپ کی جان لے سکتا تھا۔ ارتقائی عمل میں گزرنے والے ہمارے آبائو اجداد کے لئے بہتر تھا کہ وہ اپنی جان بچائیں، خاص طور پر جب یقین کا تعلق اُس شیر سے ہو جو گھاس میں چھپا آپ کی گھات میں تھا‘‘۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو چیزیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے یا جن کے بارے میں ہمارا تجربہ براہِ راست ہوتا تھا اور جن کی وجہ سے ہماری جان بھی جا سکتی تھی، اُن کے بارے میں ہم شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتے تھے لیکن جب زبان ارتقائی عمل سے گزر کر پیچیدہ تر ہوتی گئی تو ہم نے ایسے یقین بھی اختراع کرنا شروع کردیے جو ہمارے براہِ راست تجربے کے دائرے میں نہیں آتے تھے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے یقین کی تردید کرنے والی کوئی ٹھوس شہادت دیکھتے ہیں تو بھی ہمارا یقین تبدیل نہیں ہوتا؟

میں اکثر اپنے کالمز اور پی ٹی آئی پر تنقیدی ٹویٹ کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں مجھے چار قسم کے ردِ عمل ملتے ہیں۔ پہلا، وہ افراد جو میرے ٹویٹ پیغام سے متفق ہوتے ہیں، وہ انہیں ری ٹویٹ کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حقائق اور اعداد و شمار کی زبان میں معقول طریقے سے اختلاف کرتے ہیں اور یقیناً اُن کے پاس اختلاف کا حق ہے۔ تیسرے وہ جو اپنے موقف اور یقین پر قائم رہتے ہیں، چاہے اُنہیں اس کے لئے کچھ اعداد و شمار اور معلومات کا خون کیوں نہ کرنا پڑے۔ تاہم وہ تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہیں۔ آخر میں وہ جو شدید الفاظ میں نفرت بھرا ردِ عمل دیتے ہیں۔ یہ مغلظات اور دشنام طرازی انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے یہ جاننے کے لئے نفسیاتی مطالعہ کیا کہ جو لوگ ہمیں بہت کم جانتے ہیں، وہ مجھے یا میرے ساتھیوں کو کیوں بدعنوان یا جھوٹا قرار دیتے ہیں؟ اس الزام تراشی کو ’’یقین‘‘ بنا کر کس نے اُن کے ذہن میں اتارا۔ جب حقائق اور ثبوت اس کی تردید کررہے ہوتے ہیں تو وہ الزامات بھرے یقین پر کیوں جمے رہتے ہیں؟

موجودہ وزیراعظم نے کئی سالوں تک بلاتکان الزامات لگائے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما بدعنوان ہیں۔ آج بھی تین اہم ثبوت موجود ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) بدعنوان نہیں۔ پہلا، نیب کی ٹرائل کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فیصلے میں یہ نہیں لکھا کہ بدعنوانی کا ثبوت مشکوک پایا گیا۔ فیصلے میں لکھا کہ بد عنوانی کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ یقیناً نوازشریف کو نیب عدالت نے دو کیسز میں آمدنی سے زائد اثاثوں کے کیس میں سزا دی ہے لیکن ان میں سے ایک سزا معطل ہو چکی ہے جبکہ دوسری کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل التوا میں ہے۔ بہت سے وکلا نے لکھا ہے کہ نیب عدالت کے فیصلے کمزور قانونی بنیاد پر کیے گئے اور ان فیصلوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نواز شریف کے والد صاحب دولت مند شخص نہیں تھے اور اُن کے پاس بہت سے دیگر پاکستانیوں کی طرح بیرونِ ملک دولت نہیں تھی۔ مسلم لیگ(ن) اور نواز شریف کی بے گناہی کو دوسر ا کھلا ثبوت یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کم و بیش ایک سال سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران فرض کیا جاتا ہے کہ تمام بدعنوانی ختم ہو چکی ہے اور کہا گیا تھا کہ پاکستان بدعنوانی کی وجہ سے ہی ایک غریب ملک ہے۔ آج ایک عام آدمی کو بھی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کی معیشت پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بدعنوانی کی مد میں ضائع ہونے والی بھاری بھرکم رقم بچانے کے بعد آج پی ٹی آئی قرض اور خسارے کے سمندر میں ملک کو کیوں ڈبو رہی ہے؟ تو کیا بدعنوانی اب ہے یا مسلم لیگ(ن) کے دور میں تھی؟

آخر میں پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا لیکن اس نے مسلم لیگ(ن) کی بدعنوانی پر کوئی وائٹ پیپر شائع کیوں نہیں کیا؟ یہ ہمیں کیوں نہیں بتاتی کہ سی پیک، ایل این جی اور دیگر منصوبوں میں کون سی کرپشن ہوئی تھی؟ کتنی رقم تھی اور کون سے لوگ ملوث تھے؟ میں الزامات اور کاغذی ثبوت کی نہیں، ٹھوس ثبوت کی بات کر رہا ہوں۔وزیراعظم کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ ہر چیز میں شفافیت لائیں گے۔ سب سے پہلے الزامات میں تو شفافیت لائیں لیکن منطق اور معقولیت ایک طرف، پی ٹی آئی کے حامی یقین کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ بدعنوان ہے۔ اسی کو Cognitive Immunizationکہتے ہیں۔

تازہ ترین