بلاشبہ آواز ہماری زندگی کا نہایت اہم جزو ہے، جسے بسا اوقات کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک لمحے کے لیے آپ تصور کیجئے کہ، اگر ہمارے ارد گرد خاموشی چھا جائے، ہمیں ایک ایسا سناٹا گھیرلے جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے، تو سوجیں ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے، اپنے پیاروں، عزیز و اقارب، دوست و احباب سے رابطہ کیسے کریں گے۔ ان سے اپنے دکھ سکھ کیسے بانٹیں گے، اگر آواز ہی نہ ہوگی تو ذرائع ابلاغ کا نظام تھم کے رہ جائے گا، نہ کسی کی بات سن سکیں گے اور نہ ہی اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکیں گے۔ ماحول میں موجودگی کے احساس ، جذبات کی شدت کو محسوس کرنے اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے آواز کی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ آواز زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ گنگناتے آبشار، بہتے دریاؤں کا شور، فضا میں اڑتے اور چہچہاتے پرندے، برستی بارش کی جلترنگ، سناٹے میں گونجتی ٹرین کی سیٹی، بے ہنگم ٹریفک کا شور وغیرہ جیسی نہ جانے کتنی آوازیں اس کرہ ارض پر زندگی کا پتہ دے رہی ہیں۔ لیکن ایک آواز ایسی بھی ہے جو ان تمام آوازوں سے بالاتر اور سب سے خوبصورت ہے، وہ ہے ’’انسانی آواز‘‘، چاہیے ننھے بچے کی قلقاری ہو یا ماں کی لوری، جب کسی کی سماعت پر پڑتی ہے تو کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔ اپنے حق کے لیے بلند ہوتی آوازیں بلاشبہ طاقت و شعور کا پتا دیتی ہیں۔ کسی گلوکار کی مدھر آواز میں چھیڑے سُر محفل میں جہاں سماں باندھ دیتے ہیں۔ وہیں ڈراما، فلم، تھیٹر اور اشتہارات میں پس پردہ چلنے والی آوازیں کسی ’’وائس اوور‘‘ آرٹسٹ کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ وائس اوور انڈسٹری کو پاکستان میں پنپتے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ، لیکن آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ، جو ’’وائس اوور‘‘ کو ’’گلوکاری‘‘ سمجھتے ہیں۔ آج جہاں میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہے، وہیں وائس اوور انڈسٹری ماضی کے مقابلے بہتری کی جانب گامزن ہے، کیوں کہ اس انڈسٹری کا تعلق صرف نشریاتی ابلاغ کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ اشتہارات کی صنعت کا در و مدار بھی اسی پر ہے۔ بدلتے دور کے ساتھ ہر چیز کمرشلائز ہوگئی ہے، آج ہر عام و خاص مصنوعات کے اشتہارات ٹی وی پر چلتے ہیں، یہ وائس اوور آرٹسٹ ہی تو ہیں، جو ان اشتہارات میں جان بھرتے ہیں۔ اس لیے وہ نوجوان جو حالیہ بحران سے دلبرداشتہ ہوگئے ہیں تو وہ مایوس نہ ہوں، وائس اوور انڈسٹری کے دروازے آپ کے لیے کُھلے ہیں۔ اس کے لیے اچھی آواز کا ہونا ضروری تو ہے لیکن لازمی نہیں۔ اگر آپ کا لہجہ اور تلفظ درست ہے تو آپ بلا جھجگ اس انڈسٹری میں قسمت آزما سکتے ہیں۔ ’’وائس اوور‘‘ کیا ہے اور آپ کیسے وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں یہ جاننے کے لیے زیر نظر مضمون میں پڑھیے۔
’’وائس اوور‘‘ کیا ہے؟
’’وائس اوور‘‘ کو آف کیمرا یا آف اسٹیج کمینٹری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا آرٹ ہے۔ جس میں ’’وائس اوور آرٹسٹ‘‘ کیمرے کے پیچھے رہتے ہوئے اپنی آواز ریکارڈ کرواتے ہیں۔ مثلاً آپ نے نیوز چینلز پر خبریں دیکھتے ہوئے کئی رپورٹس ایسی بھی دیکھی ہوں گی، جن میں اسکرین پر دوڑتے بھاگتے مناظر کے پیچھے ایک آواز سنائی دے رہی ہوتی ہے، جو اسکرین پر چلنے والے مناظر کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے کبھی نہ کبھی نیشنل جیوگرافک پر انگلش یا اردو ڈبنگ کے ساتھ مختلف اور حیرت انگیز دستاویزی فلمیں تو ضرور دیکھی ہوں گی۔ جن میں اکثر کسی عام سے منظر کو ڈبنگ کرکے چند آوازوں کی مدد سے ایک ڈرامائی تاثر دیا جاتا ہے۔ یہ ہی ’’وائس اوور‘‘ ہے۔ کیا آپ اب بھی نہیں سمجھے؟ ارے بھئی، کبھی کسی بینک، کمپنی یا شکایتی مرکز پر کال کرتے ہوئے غور کریں تو ایک ریکارڈنگ چلتی ہے، جو آپ کو ہدایت دیتی ہے کہ ’’اب آپ کسٹمرز سروس کے نمائندے سے بات کرنے کے لیے فلاں نمبر ملائیں‘‘ یا پھر موبائل کا بیلنس لوڈ کرتے ہوئے آپ کا واسطہ ان آوازوں سے ضرور پڑا ہوگا کہ، ’’اسکریچ کارڈ سے 14 ہندسوں کا نمر فلاں کوڈ کے بعد ملائیں‘‘ یا پھر کبھی آپ کے پیاروں کا موبائل فون بند ہو تو ’’آپ کا مطلوبہ نمبر فل وقت بند ہے، برائے مہربانی کچھ دیر بعد کال کیجئے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ آئی وی آر پر چلنے والی یہ آواز ہو یا غیر ملکی ڈراموں پر اردو ڈبنگ ہو یا پھر کارٹون کے کرداروں کی آوازیں، سب اسی زمرے میں آئیں گی۔ نیز دن رات ٹی وی پر چلنے والے اشتہاروں میں مختلف آوازیں جو مختلف پراڈکٹس کی خصوصیات بیان کرتی سنائی دیتی ہیں، ان تمام آوازوں کا تعلق براہ راست ’’وائس اوور‘‘ انڈسٹری سے ہے۔ یہ’’وائس اوور‘‘ آرٹسٹ ہی ہوتے ہیں جو دستاویزی فلمیں، نیوز رپورٹس، آئی وی آر اور اشتہارات میں اپنی دلکش آوازوں سے جان ڈال دیتے ہیں۔
’’وائس اوور‘‘ کا معاوضہ
گزرتے وقت کے ساتھ ’’وائس اوور‘‘ انڈسٹری کے بارے میں جیسے جیسے شعور بیدار ہو رہا ہے، یہ شعبہ ویسے ویسے اپنی جگہ بنارہا ہے، لیکن ’’دلی اب بھی دور ہے‘‘۔ آج بھی ایسے کلائنٹس کی کمی نہیں جو اپنی مصنوعات کے اشتہارات یا پروموشنل وڈیوز کے بجٹ میں وائس اوور کو سب سے آخر میں رکھتے ہیں۔ لیکن یہ حربہ تجربے کار وائس اوور آرٹسٹوں پر اب نہیں چلتا، البتہ وہ نوجوان جو اس فیلڈ کے بارے میں زیادہ معلومات اور آگاہی نہیں رکھتے، وہ بہ آسانی معاشی استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی نئے وائس اوور آرٹسٹوں کو ایک دو ہزار روپے دے کر نمٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن تجربے کار وائس اوور آرٹسٹ اپنے فن کا مناسب معاوضہ وصول کرلیتے ہیں۔ جس میں ایک ’’وائس اوور‘‘ کا کم سے کم معاوضہ بھی فی ’’وائس اوور‘‘ چھ سے دس ہزار ہے۔ اس کے بعد پراڈکٹ، کلائنٹ اور اسکرپٹ کے ساتھ یہ معاوضہ بڑھتا جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر آرٹسٹ اپنی آواز کی قیمت خود لگاتا ہے۔ چاہے تو بے مول کردے ، چاہے تو قدرت کے اس انعام کو انمول کردے۔
’’وائس اوور‘‘ اسکوپ؟
’’وائس اوور‘‘ ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی پہنچ لامحدود ہے۔ یہ انڈسٹری ریڈیو اسٹیشنز یا ٹی وی چینلز تک محدود نہیں ہے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیز، پروڈکشن ہاوسز، مختلف کاروباری ادارے جو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے وڈیوز بناتے ہیں، ان تمام اداروں میں وائس اوور آرٹسٹوں کے لیے لامحدود مواقع ہیں۔ جہاں وہ فری لانس کام کرکے اپنی آواز کو کیش کرواسکتے ہیں، بلکہ اب تو کچھ ادارے باقاعدہ ’’وائس اوور آرٹسٹ‘‘ ہائر بھی کرنے لگے ہیں، جب کہ ایف ایم ریڈیو میں بھی آر جےز اپنی آوازکا ہی معاوضہ لیتے ہیں۔
’’وائس اوور آرٹسٹ‘‘ بننے کے لیے کیا کیا جائے؟
’’تمہاری آواز بہت اچھی ہے‘‘ زندگی میں کبھی کسی نے آپ کو یہ جملہ کہا ہے؟ تو جواب میں شرما کر، مسکرا کر سر جھکانے کے بجائے، فورا " وائس اوور" کرنے کا سوچیے۔ اللہ نے آپ کو جو آواز کا تحفہ دیا ہے، اسے رزق حلال کمانے کے لیے استعمال کیجئے۔ لیکن واضح رہے کہ اچھی آواز ہونے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ آپ کا لہجہ اور تلفظ، انداز بیاں بھی درست ہو، تب ہی آپ اس انڈسٹری میں اپنا لوہا منوا سکیں گے۔ اپنی آواز خود ریکارڈ کیجئے، اور سن کر اندازہ لگائیے کہ آپ اس وقت وائس اوور فیلڈ میں کہاں کھڑے ہیں؟ کچھ لوگ اس فن میں قدرت کی طرف سے مالا مال ہوتے ہیں، جب کہ کچھ اچھی آوازوں والے اپنے لب و لہجے کو پالش کرکے اس انڈسٹری میں جگہ بناسکتے ہیں۔ ’’وائس اوور‘‘ کو ایزی منی تو نہیں کہا جاسکتا ، البتہ اس ٹیلنٹ کو کیش کرانے کا آسان ذریعہ ضرور ہے۔
’’وائس اوور ریکارڈنگ اسٹوڈیو‘‘
عام طور پر وائس اوور ریکارڈنگز کے لیے ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اور پروڈکشن ہاؤسز، آرٹسٹ کو اپنے اسٹوڈیو میں بلاکر ریکارڈنگ کرواتے ہیں۔ لیکن جب آپ اس فیلڈ میں تجربے کار ہو جائیں تو ایک مناسب ریکارڈنگ اسٹوڈیو خود اپنے گھر میں بھی سیٹ کرسکتے ہیں، جس کے لیے کچھ سرمائے کی ضرورت ہوگی اور پھر ہمیشہ کی سہولت۔ عام طور پر ادارے ان وائس اوور آرٹسٹوں سے کام کروانا پسند کرتے ہیں جو خود ریکارڈنگز کرکے بھیج سکتے ہوں۔ کیوں کہ اس طرح ورک فورس اور سروس چارجز کی مد میں آنے والے اخراجات میں کمی آجاتی ہے۔ تو پھر نوجوانو! کیا سوچ رہے ہیں، دیر کس بات کی پریکٹس کیجئے اور چلائیے اپنی آواز کا جادو۔