آپ شایداس سے اتفاق نہیں کریں گے مگر واضح اشارے ملتے ہیں اور قوی امکان ہے کہ آئندہ عام انتخابات لیفٹ رائٹ، بائیں بازو اور دائیں بازو، ترقی پسندوں او ر قدامت پرستوں، بنیاد پرستوں اور بے بنیاد پرستی کے درمیان مقابلے کی صورت میں نہیں ہوگا چنانچہ مفروضہ غلط ثابت ہوسکتاہے کہ دائیں بازو کے تمام ووٹ تقسیم ہوجانے کی وجہ سے بائیں بازو کے امیدوار تھوڑے سے ووٹوں کے ساتھ جیت جائیں گے۔ ان انتخابات سے پہلے ایک بالکل مختلف قسم کی ”پولر آئی زیشن“ وجود میںآ سکتی ہے۔ جس کے تحت اصل مقابلہ جمہوریت پسندوں اور جمہوریت کے دشمنوں یعنی آمریت پسندوں کے درمیان ہوگا۔
اس کا کچھ اندازہ سنیٹر رضا ربانی کے نہایت سنجیدگی بلکہ فکرمندی کے ساتھ بیان کئے گئے اس اندیشے سے ہوتا ہے کہ اپنی 66 سالہ قومی زندگی کا بیشتر حصہ مارشل لاؤں، فوجی حکومتوں اورغیرجمہوری سیاسی تسلط میں برباد کرنے والے پاکستان کوپہلی بار جمہوری حکومت کا ایک مرحلہ طے کرتے دیکھ کر پریشان ہونے والے وطن عزیز کو ایک بار پھر جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان سازشوں کی تلوار پاکستانی قوم کے سروں پر آئندہ عام انتخابات کے بعد بھی نئے حکمرانوں کے نئے چناؤ تک لٹکتی رہے گی اور اگر ملک کے جمہوریت پسند جمہور نے اتحاد اور یکجہتی کا عملی ثبوت دیا اور جمہوریت دشمن عناصر میں ڈٹ کر مقابلہ کیا تو وہ انشاء اللہ ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔
سنیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ کبھی ”ٹیکنوکریٹس“ پر مشتمل عبوری حکومت وجود میں لانے اور اسے کم از کم تین چار سال تک قومی سیاست پر مسلط رہنے کی سہولت فراہم کرنے کے بہانے اور کبھی متفقہ طور پر قائم کئے گئے الیکشن کمیشن کو غیر جمہوری طریقے سے توڑنے اور انتظامی اصلاحات نافذ کرنے کے حیلے سے عام انتخابات کو ملتوی اور منسوخ کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں جو دراصل پاکستان کو جمہوریت سے محروم کرنے اور غیر جمہوری حکومتیں بحال کرنے کی سازش ہے۔ بلاشبہ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اور دھرنا بھی انہی سازشوں کا لازمی حصہ تھااوراس لانگ مارچ کو سابق آمر جنرل پرویز مشرف کی ”آشیرباد“ بھی اس کا واضح ثبوت ہے۔ جنرل پرویز مشرف علامہ صاحب کے تعاون سے ہی آئندہ عام انتخابات سے پہلے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ سکیں گے اور ان کی حکمرانی کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے دوبارہ جوڑیں گے۔ (خدانخواستہ)
یہ بھی ان سازشوں کا کریڈٹ ہے کہ پاکستان کے متفقہ طور پر چنے گئے نئے چیف الیکشن کمشنر اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی محترم شخصیت جناب فخر الدین جی ابراہیم کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے ہمدردی رکھنے کے الزام کی زد میں لایا جارہاہے۔ کل جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر اسلم زاہد، محمود خان اچکزئی، سردارعطا اللہ مینگل اور جسٹس اجمل میاں کے صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف سے فاصلے ناپے جائیں گے اور اس سے اگلے روز یہ فیصلہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان جیسا غریب اور مسائل سے دوچارملک جمہوریت اور عام انتخابات جیسی مہنگی عیاشی افورڈ نہیں کرسکتا۔
اس نوعیت کی سازشوں کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کو ہی ہوسکتا ہے چنانچہ کچھ بعید نہیں اور عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون گروپ ان سازشوں کے خلاف مقابلے کے لئے متحدہ محاذ بنائیں۔ تحریک انصاف کے عمران خان پہلے ان کے ساتھ ملنے کا وعدہ کریں اور پھرانکار کردیں اور آخری فیصلہ فیض احمد فیض # کے مشورے کے مطابق ہو کہ:
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے