• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اگلے روز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں جو خطاب کیا، وہ آج کی صورت حال میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس خطاب کے کئی نکات پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے تاکہ تنازعات میں الجھنے کے بجائے معاشی بحران سے نکلنے کیلئے وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب میں حکومت کے ان اقدامات کی تائید کی ہے، جو وہ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کر رہی ہے۔ جنرل باجوہ نے اس حقیقت کا بھی برملا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں سے مشکلات بڑھ گئی ہیں لیکن ان مشکلات کی ذمہ دار ماضی کی حکومتوں ہیں، جنہوں نے بقول ان کے، مشکل فیصلے نہیں کئے۔ اس طرح آرمی چیف نے بین السطور حکومت کے مشکل فیصلوں کو درست قرار دیا ہے اور اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مشکل حکومتی فیصلوں کو کامیاب بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یعنی انہوں نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ پاک فوج کی طرف سے ایک جمہوری حکومت کی مکمل تائید اور حمایت کا اظہار کرکے ایک اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے فیصلوں کے نتائج چاہے کچھ بھی ہوں لیکن جمہوری حکومت کے فیصلوں کی توثیق کرکے پاک فوج نے مثبت کردار ادا کیا ہے اور اس اچھی روایت کو ہمیشہ قائم رہنا چاہئے۔ سپہ سالار پاکستان نے ماضی کی جن حکومتوں کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا ہے، ان میں سے کسی کا بھی انہوں نے نام نہیں لیا۔ کسی کو اس حوالے سے ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے اس نکتے پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی اس تباہی کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں؟ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے خطاب میں یہی کہا ہے کہ قومی اہمیت کے امور پر اب کھل کر بات چیت ضروری ہے۔

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو انتہائی اہم نکات کی درست نشاندہی کی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہم متحد ہوں اور ایک قوم بن کر سوچیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ علاقائی رابطوں (Regional Connectivity) کو فروغ دیا جائے۔ قومی اتحاد کیلئے انہوں نے یہ تجویز دی ہے کہ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز قومی اہمیت کے معاملات پر بات چیت کریں کیونکہ کوئی فردِ واحد قومی اتحاد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ علاقائی رابطوں کو فروغ دینے کے حق میں ان کی یہ دلیل کافی ہے کہ ’’ملک نہیں، خطے ترقی کرتے ہیں‘‘۔ ان دونوں نکات پر بھی قومی مباحثہ ہونا چاہئے کہ پاکستانی ان مشکل حالات میں ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں اور ہمسایہ ممالک سے باہمی تعلقات اور تجارت کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟ اور یہ کام ماضی میں کیوں نہیں ہوا اور اس کے بھی ذمہ دار کون ہیں؟

مذکورہ بالا نکات پر قومی مباحثوں کے ساتھ ساتھ پہلے اس نکتے پر بحث ہونی چاہئے کہ تحریک انصاف کی حکومت جو مشکل فیصلے کر رہی ہے، کیا اس میں یہ اہلیت ہے کہ وہ تقسیم در تقسیم قوم کو متحد کر سکے۔ اس خطے کے ممالک خصوصاً ہمسایہ ممالک سے دوریاں ختم کر سکے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکال سکتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی خود مختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی سیاسی پالیسیوں اور قائدین کے سیاسی بیانیہ سے ملک میں پولیٹکل پولرائزیشن (سیاسی تقسیم) بہت تیزی سے گہری ہو رہی ہے، جو قومی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ یہ گالی والا بیانیہ ہے۔ ان کے نزدیک دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگ کرپٹ ہیں اور ڈاکو ہیں۔ اس بیانیہ کے ساتھ قومی اتحاد کیلئے آگے بڑھنا مشکل ہے۔ بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے کیلئے جو سیاسی اتفاق رائے پیدا ہوا تھا یا پیدا کیا گیا تھا، اسے بھی تحریک انصاف نے قائم نہیں رہنے دیا۔ اب اپوزیشن جماعتیں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ پاکستان کا نیا سیاسی بحران بلوچستان سے ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جہاں تک علاقائی رابطوں کو فروغ دینے کا تعلق ہے،حکومت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے، جو علاقائی اور عالمی سیاست کے حوالے سے کوئی اپنا نظریہ یا سوچ رکھتا ہو یا جس نے دانشورانہ یا سیاسی کام کیا ہو۔ وزیراعظم عمران خان کی دنیا میں شہرت ضرور ہے لیکن عالمی سطح خصوصاً اس خطے کے ممالک کی سیاسی قیادتوں کو یہ معلوم ہے کہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف یا ان سے پہلے کے سیاست دانوں نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کے فوجی اتحادوں سے نکالنے، پاکستان کو غیر وابستہ تحریک سے جوڑنے اور علاقائی تنظیموں کے قیام کیلئے جو کوششیں کیں، ان کوششوں پر ان کو سزا دی گئی۔ علاقائی رابطوں کو فروغ دینے کیلئے بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، دیگر ترقی پسند، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا اعتماد اور حمایت بھی اس حکومت کو حاصل کرنا ہوگی کیونکہ پاکستان کو اس خطے سے باہر کی طاقتوں نے جکڑا ہوا ہے۔ علاقائی رابطوں کیلئے بھارت، ایران، افغانستان، روس، سارک کے دیگر ممالک اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج کب آئیں گے؟ اس سے پہلے اہم فیصلے فوری طور پر کرنا ہوں گے۔ سیاسی پولرائزیشن اور معاشی سست روی کو روکا جائے، جو بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ فوری طور پر ڈالر کو 140روپے سے کم کیا جائے، چاہے اس کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ کچھ درآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔ بجلی کے اداروں کو عوام کی لوٹ مار سے روکا جائے۔ پٹرول کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے۔ مہنگائی کے عفریت سے لوگوں کو بچایا جائے۔ قوم اس عذاب سے نکلنے کیلئے متحد ہونا چاہتی ہے لیکن یہ عذاب انارکی اور افراتفری کی طرف لوگوں کو دھکیل رہا ہے۔ سیاست دانوں کا احتساب ضرور کیا جائے لیکن احتساب بلا امتیاز ہو۔ سیاسی تصادم والی صورت حال پیدا نہ ہونے دی جائے۔ لوگوں کو خوف سے نکالا جائے۔ مشکل فیصلوں سے نہ صرف مشکلات بڑھ رہی ہیں بلکہ ابھی تک کسی درست سمت کا تعین بھی نہیں ہوا ہے۔

تازہ ترین