• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پیتل گلی‘‘ یہاں اشیاء کی فروخت 70 فیصد کم ہوگئی

شہباز طاہر

یہاں اب پیتل وتانبے کی آرائشی اشیاءکی فروخت 70فیصدکم ہوگئی ہے

دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہاں کی دستکاری اس کی ثقافت اورہنر مندی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ہنر مند دستکاروں کے فن پاروں کو دیکھ کر قدر دان وشائقین فوراً شناخت کرلیتے ہیں کہ یہ دستکاری کے نمونے کس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دستکاری کے خوب صورت فن پارے دنیا بھر میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، دستکاری کے یہ نمونے اپنے ملک کے خاموش سفیر ہوتے ہیںکہا جاتا ہے کہ پیتل سے آرائشی اشیا کی تیاری کا فن وسط ایشیا کے حملہ آوروں کے ذریعے یہاں پہنچا اور برصغیر پر مغل دورِ حکمرانی میں شاہی قدر دانی سے اسے عوامی فروغ حاصل ہوا۔

سیاح جس ملک میں بھی سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں، وہاں سے اپنی پسند کی دستکاریاں ضرور خریدتے ہیں اورانہیں اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں سجاتے ہیں۔ پاکستان دستکاری کے لحاظ سے دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ہمارے ملک کے ہنر مند دستکار ایسی خوب صورت شاہ کار چیزیں تخلیق کرتے ہیں کہ دیکھنے و الا انہیں دیکھ کر دنگ رہ جاتا۔

پیتل میں دھات سے بنے فن پارے جو کبھی سندھ کی شناخت سمجھتے جاتے تھے اوران کا استعمال باعث فخر تصورکیاجاتا تھا اب ان کے استعمال میں روزبروز کمی آتی جارہی ہے۔ پیتل جس کی تھالی میں کھانا پرونا اورگھر سجانا مغلیہ دور کی نشانی اوراپنے آپ میں ایک مثال سمجھتی جاتی تھی یہ باتیں صرف کہنے سننے تک محدود ہوگئی ہے، پیتل سے بننے والے ایک گل دان میں کتنی محنت پوشیدہ ہوتی ہے، اس کااندازہ لگانا مشکل ہے، دھاتوں سے بنائی گئی دستکاریاں اوران پر کندہ کام پوری دنیا میں پاکستان کی شناخت کا باعث ہے، یہ ہمارے دستکاروں کی ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے، دھاتوں میں اگر پیتل ہی کو لیں تو اس سے ہمارے ہاں کئی قسم کی اشیاءتیار کی جاتی ہیں ۔

کراچی میں پیتل سے بنائے گئے فن پاروں کے حوالے سے گولی مار کے علاقے میں واقع ایک گلی ہے جو کہ ”پیتل گلی“ کے نام سے مشہور ہےہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے ہنرمندوں نے اس کی بنیاد ڈالی تھی ،یہاں یہ کام قیامِ پاکستان کے بعد سے شروع ہوا جب پیتل کے ظروف ساز اور نقش و نگار کے ماہر دستکار اُتر پردیش کے شہر مراد آباد اور پایہ تخت دلی سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے۔ اس وقت یہاں سوسے زائد دکانوں اور کارخانوں میں تانبے پیتل سے بنی ہوئی آرائشی اشیاء فروخت کی جاتی تھیں۔سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل ہونے والے فن کے وارثوں کی اس گلی کی وجہ شہرت یہاں پر پیتل سے ظروف سازی اور دھاتی چادر پر کی جانے والی نقش و نگاری تھی، تاہم کراچی میں بجلی کی لو ڈ شیڈنگ اور برآمدات میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے یہ فن زوال پذیر ہو رہا ہے، اس گلی کے اطراف میں آباد لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے گھر وں میں پیتل پر کندہ کاری کاکام کرتے تھے، گھرکے سربراہ کے علاوہ ان کے بیٹے کم عمری میں ہی سے اس ہنر کو سیکھ لیتے تھے اوراس طرح وہ ایک دن مکمل طورپر اس فن میں مہارت حاصل کرلیتے۔ پیتل سے جو بھی چیز کسی بھی شکل میں بنانی ہوتی ہے توسب سے پہلے مطلوبہ چیز کی ڈھلائی کی جاتی ہے جو کہ دو حصوں میں سانچوں کی مدد سے ڈھالی جاتی ہے، پھر ان دونوں حصوں کو جوڑتے ہیں تو جو بھی چیز مثلاً گھوڑا، بطخ، ہرن یاکسی بھی قسم کی شبیہہ تیار کی جاتی ہے اس کے بعد مختلف ہنر مندوں کا کام شروع ہوجاتاہے سب سے پہلے یہ گرینڈر اوربفنگ کا کام کرنے والے کے پاس پہنچایا جاتا ہے، جہاں اس سے نقائص اورغیرضروری ابھار گرینڈر کی مدد سے درست کیے جاتے ہیں، یہ بڑا ہی نازک کام ہوتا ہے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قدر میں جیسے جیسے کمی آئی پیتل گلی کے اطراف میں جو گھروں میں کام کرتے تھے، انہوںنےتقریباً اسے ترک کرکے روزگار کے دوسرے ذریعے ڈھونڈ لیے ہیں۔پیتل تانبے کے کاریگروں نے یہ فن اپنی آنے والی نسل کوبھی منتقل نہیں کیا ،جس سے کچھ عرصے بعداس فن کے مکمل طور پر ختم ہونے کاخدشہ ہے۔یہاں اب سینیٹری کی دکانیں زیادہ ہوگئی ہیں، ان دستکاریوں کے زیادہ تر خریدار بیرون ملک سے آنے والے سیاح ہوتے تھے اوران میں آرڈر دینے والے بھی،90کی دہائی میں کراچی کے حالات بالخصوص ہڑتال اور جلاؤ گھیراؤ پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اس کام کو شدید نقصان پہنچا ملک میں بدامنی کی وجہ سے سیاحوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا جو ان اشیاءکے سب سے بڑے خریدارتھے، اس طرح یہ کام زوال کی جانب گامزن ہوگیا اوررہی سہی کسر پیتل گلی میں سینٹری بازار کے قیام سے پوری ہو گئی۔

پیتل گلی میں بڑے بڑے پیتل کے تھالوں اوردیگر اشیاء پر بھی خوب صورت نقاشی کی جاتی تھی جو چیتائی کاکام کہلاتا ہے ،جس میں بنانے والے آئٹم میں محلول بھر کر اس پرچھینی اورہتھوڑی کی مدد سے خوش نما نقش ونگار ابھارے جاتے ہیں ۔اس کام کو 90 فیصد لوگوں نے ترک کردیاہے۔جہاں تا نبے اور پیتل کے کام کرنے والے کا رخانے اور کا ریگر وں کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن اب صر ف15کا رخانے مو جود ہیں،جس کی بنیا دی وجہ پیتل تانبے کی قیمت بڑھنے سے لاگت بھی کئی گنا اضا فہ اور کم قیمت پر ماربل سے بنی چیزوں کا ما رکیٹ میں آنا ہے،پیتل وتانبے کی آرائشی اشیاءکی فروخت 70فیصدکم ہوگئی ہے۔ جو دوکانیں باقی رہ گئی ہیں ،ان پر بھی گاہک کا انتظار ہی رہتاہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیتل کے کام کرنے والے کا ریگر اور کارخانے کم ہو تے جا رہے ہیں، کاریگروں نے دوسرے پیشے اختیار کرلیے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی عدم دلچسپی اورنامساعد حالات کے باعث تانبے اورپیتل کی آرائشی اشیاء بنانے کافن معدوم ہونے لگاہے۔ تانبے و پیتل کے آرائشی ظروف بنانے والے ماہرکاریگروں کافن پاکستان سے باہربھی مشہوراورملک کی پہنچان ہے، تاہم حکومتی سطح پرکوئی سرپرستی اور معاونت نہ ہونے اورنامساعدحالات کی وجہ سے یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے۔

کراچی میں حالات پرامن ہیں ،جس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں اور غیرملکی مہمان بھی پاکستان آرہے ہیں، آرائشی اشیا ءبنانے والے کاریگروں کو ملک میں ہونے والی تجارتی نمائشوں میں شرکت کے مواقع دیے جائیں تواس شعبے کو ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔

پیتل گلی میں بنائے گئے ظروف اورمجسمے زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور خلیجی ملکوں کو ایکسپورٹ کیے جاتے رہے ہیںجوامیر طبقے کے گھروں کی زینت بنے، پاکستان کے کاریگروں نے ایران اور عراق کے مقامات مقدسہ اور مزارات میں آرائشی اشیاءاور مزارات کی جالیاں بھی تیارکیں، جبکہ اسلامی ممالک میں مساجد کے میناروں کے کلس خاص طور پر کراچی کے اس بازار سے بنوائے جاتے رہے ہیں۔لیکن اب ہمارے بنائے گئے ظروف اورمجسمے صرف ایران اور چین ایکسپورٹ ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین