• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بحث کی جا رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کو اگر ایمانداری کے ساتھ نافذ کیا گیا تو موجودہ اسمبلیوں میں موجود شاید ہی کوئی دوبارہ الیکشن لڑنے کے قابل ہواس لیے بس ایک حد تک آئین کی چھلنی کو استعمال کیا جاناچاہیے۔کس زبردست طریقہ سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ دوسروں کو تو چھوڑیں عمران خان نے یہ کہہ دیا کہ آئین کی ان دفعات کو صرف مالیاتی معاملات تک محدود رکھنا چاہیے۔ کیوں جناب حکمرانوں ، سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کے ممبران کے لیے اخلاقیات اور مذہبی اور معاشرتی قدروں کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کیا منطق ہے کہ معاشی طور پر کرپٹ تو حکمرانی کے قابل نہیں مگر اخلاقی طور پر کرپٹ افراد کو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ دینے پر کوئی حرج نہیں۔ اس پروپیگنڈہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ شرابیوں، زانیوں، جعلسازوں، جھوٹوں، بے ایمانوں اور بے عمل مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے نہ روکا جائے۔ جب آئین کہتا ہے کہ پالیمنٹ کے مسلمان اراکین صوم و صلوة کا پابند ہونا اور اسلام کے بنیادی شعائر کی خلاف ورزی نہ کرنا لازمی ہے تو ان شرائط پر عملدرآمد سے گریز کیوں۔ ویسے تو آئین کو اپنے ایمان کا حصہ ماننے والے آخر ان آئینی شرائط سے اس قدر خوفزدہ کیوں۔ آرٹیکل 62 اور 63کے مکمل نفاذ کے خلاف بات کرنے والے تو کئی لوگ ہیں جن میں اکثریت اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہنے والے کنفوژڈ مسلمانوں ، لبرل فاشسٹوں اور سیکولرز کی ہے مگر ایسی بات کا عمران خان کی طرف سے کرنا حیران کن ہے۔ عمران تو تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ شرابیوں، زانیوں، جعلسازوں، جھوٹوں اور بے ایمانوں کو سیاست سے نکالے بغیر تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ عمران خان تو اعلان کر چکے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اسلامی فلاحی ریاست کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب شرمندہ شرمندہ رہنے والے بے عمل مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی ملک کی تقدیر رہے گی۔ اگر آئین میں دی گئی اسلامی دفعات پر عمل نہیں کرنا اور صرف مغرب کی جمہوریت کی ہی تقلید کرنی ہے تو پھر ایسی جمہوریت کا تو دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے برخلاف ہماری جمہوریت اسلام کی حدوں سے باہر نکلتی ہے تو ایسی جمہوریت کی حمایت کرنا قرآن اور سنّت کے برخلاف ہو گا۔
یہاں تو مغرب میں رہنے والے اپنے حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کو اخلاقی طور پر پاکباز دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا جیسے ملک میں جہاں بغیر شادی کیے ایک دوسرے سے جنسی تعلق رکھنا ایک رواج ہے، وہاں بھی صدر اور اعلیٰ ترین فوجی عہدیدارکے خلاف اس نوعیت کے تعلقات رکھنے پر کاروائی کی جاتی ہے۔اسلام تو ویسے ہی مسلمانوں میں اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بہتریں افراد کے حق حکمرانی دیتا ہے۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ جو چاہے اپنی ذاتی زندگی میں مرضی آئے کرے، اُس کی باز پرس صرف اس بات پرہونی چاہیے کہ وہ اپنی عوامی زندگی میں کہیں غیر قانونی طریقہ سے پیسہ تو نہیں کما رہا یا کہیں ٹیکس چوری تو نہیں کر رہا۔ یعنی اگر کوئی گناہ کبیرہ کرے ، سب کے سامنے شراب پیے،غیرعورتوں سے ناجائز تعلق رکھے ، اسلامی شعائر کا مذاق اڑائے اور نظریہ پاکستان کی مخالفت کرے تواس کے باوجود ان سب خامیوں کو اُس کی ذاتی زندگی کا حصہ قرار دے کر اُسے حق حکمرانی دے دیا جائے۔ جو لوگ اپنی ذاتی زندگیوں میں ایماندار نہیں کیاوہ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ پوری قوم کی قسمت کا حال اُن کے ہاتھوں میں د ے دیا جائے۔ تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو حق حکمرانی دیا جائے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں بہترین جانے جاتے ہیں۔ ویسے بھی سیاستدانوں کو معاشرہ کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ جب عوام کی نمائندگی کرنے والے بہتر لوگ ہوں گے تب ہی حکومتی پالیسیاں بھی بہتر ہوں گی، کرپشن میں بھی کمی ہو گی اور ریاست ایک ایسا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے جہاں انصاف اور میرٹ کا بول بالا ہو اور عوام کی خدمت کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہو۔ اگر رول ماڈلز شرابی ، زانی، بے ایمان، دھوکہ باز اور جھوٹے ہوں گے تو عوام کا وہی حال ہو گا جو اس وقت پاکستان کے لوگوں کا ہے۔میڈیا، سیاست اور سول سوسائٹی میں موجود ایک مخصوص طبقہ جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے خلاف ہے، یہ پروپیگینڈہ کر رہا ہے کہ اگر ان آئینی شرائط پر عمل کیا جائے تو کوئی شخض پالیمنٹ کے لیے منتخب نہیں ہو سکتا۔ یہ سراسرلغو اور بیہودہ بات ہے۔ موجودہ اسمبلیوں میں ایسے کئی ممبران ہیں جو آئین کی ان شرائط پر پورا اترتے ہیں اور جن کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کوئی ایسا جھول نہیں جس کی آئین بات کرتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ آئین ممبران پارلیمنٹ کے لیے باعمل مسلمان ہونے کی بات کیوں کرتاہے، گناہ کبیرہ سے کیوں روکتا ہے، صادق اور امین ہونے کا کیوں کہتا ہے اور اس بات پر کیوں زور دیتا ہے کہ نظریہ پاکستان کو نہ ماننے والا رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو پھرایک بات سمجھ لیں ایسے اعتراضات کرنے والے پاکستان کی نظریاتی اساس کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس ملک کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ میرا عمران خان کو مشورہ ہے کہ وہ ایسے سیکولر اور لبرل فاشسٹوں سے بچیں جو پاکستان کی بنیادوں کو ہلانے کی سازش کر رہے ہیں۔
تازہ ترین