• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی صنعتی اور معاشی ترقی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں(SMEs)ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ سیکٹر ملک میں سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 38لاکھ سے زائد چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں قائم ہیں، جن میں 8لاکھ صنعتی یونٹس، 12لاکھ سروس سیکٹر، 18لاکھ تجارتی و ریٹیل دکانیں شامل ہیں۔ اِن صنعتی یونٹس میں 41فیصد شہری علاقوں جبکہ 59فیصد دیہی علاقوں میں قائم ہیں۔ بھارت کے مینو فیکچرنگ سیکٹر کا ملکی معیشت میں انتہائی اہم کردار ہے جس سے تقریباً 45فیصد افراد روزگار سے وابستہ ہیں۔ جاپان میں 99فیصد کاروبار چھوٹے اور درمیانے درجے کا ہے اور تقریباً 4.2ملین SMEsمیں 20.84ملین جاپانی کام کرتے ہیں جبکہ جاپان میں بڑے درجے کی صنعتیں صرف 12ہزار ہیں جن میں تقریباً 10.22ملین جاپانی کام کرتے ہیں، اس طرح جاپان کی SMEsکا مجموعی افرادی قوت میں شیئر 69فیصد ہے۔ چین جو امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے، کو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا چینی رہنما ڈنگ زیائوپنگ کے سر جاتا ہے جنہوں نے سرکاری اداروں کے ایک بڑے حصے کو پرائیویٹ سیکٹر کے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں تبدیل کیا، اس شعبے کا ملکی مجموعی جی ڈی پی میں حصہ 60فیصد ہے۔ یورپی یونین کے 27ممبر ممالک کے بلاک میں 99.8فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں ہیں جو 67فیصد افراد کو روزگار فراہم کررہی ہیں۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کی ترقی کیلئے 1998میں SMEDAکا قیام عمل میں آیا تھا جس کی ذمہ داریوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے فروغ کیلئے چیمبرز کے اشتراک سے شعبہ جاتی (Sectorial) فزیبلٹی رپورٹس فراہم کرنا تھا۔ SMEs کے فروغ کیلئے SMEبینک بھی قائم کیا گیا، جس کی نجکاری کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ SMEsکی ترقی کیلئے میں نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ وینڈر (Vendor) انڈسٹری کے قیام پر زور دیا ہے۔ جس طرح آٹو موبائل سیکٹر کی وینڈر انڈسٹریز پاکستان کے آٹو سیکٹر کو کوالٹی اور معیار کے مطابق گاڑیوں کیلئے مختلف پارٹس فراہم کررہی ہیں لیکن ہمیں آٹو سیکٹر کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتی سیکٹرز میں بھی اسی طرح کی وینڈر انڈسٹریز کو فروغ دینا ہوگا۔

ملک میں ایس ایم ایز کو فروغ دینے کیلئے وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے سمیڈا کے ساتھ مل کر قومی ایس ایم ایز پالیسی 2019کیلئے ایک مسودہ FPCCIکو بھجوایا ہے تاکہ اس پر پورے ملک کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد نئی قومی ایس ایم ایز پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر دارو خان، نائب صدور، اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹراور مختلف چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اہم تجاویز دیں۔ ایس ایم ایز سیکٹر میں ٹیکسٹائل گارمنٹس، فروٹ، ویجی ٹیبل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سرجیکل گڈز، لیدر، پرنٹنگ اینڈ پیکیجنگ، فرنیچر، کھجور پروسیسنگ اور جیمز اینڈ جیولری شامل ہیں جس کو 2007کی ایس ایم ایز پالیسی کے تحت ورکنگ کیپٹل اور BMRکیلئے بینکوں سے 6فیصد شرح سود پر قرضے لئے جا سکتے ہیں جبکہ ان سیکٹرز کے علاوہ باقی ایس ایم ایز سیکٹرز کو بینک نہایت اونچی شرح سود 18سے 20فیصد پر قرضے دیتے ہیں۔ اجلاس میں اس بات کی بھی سفارش کی گئی کہ ایس ایم ایز کو فروغ دینے کیلئے ملک میں کریڈٹ گارنٹی ایجنسی کو فعال، NBFIاور مضاربہ کو بھی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی فنانسنگ کرنے میں شامل کیا جائے۔پاکستان میں ایس ایم ایز سیکٹر کا فروغ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ایس ایم ایز کو بینکوں سے مناسب شرح سود پر قرضوں کا نہ ملنا ہے۔ دو دہائی قبل اسٹیٹ بینک کے کارپوریٹ اور SMEsسیکٹرز کے بینکوں سے قرضے لینے کے قوانین(پروڈنشل ریگولیشن) ایک ہی تھے جس کے تحت SMEsکو بینکوں سے قرضہ لینے کیلئے اپنی فیکٹری، عمارت اور مشینوں کو بینکوں کو بطور سیکورٹی گروی رکھوانا پڑتا تھا لیکن چونکہ SMEsسیکٹر میں بیشتر چھوٹی فیکٹریاں کرائے پر ہوتی ہیں اور مالکانہ حقوق نہ ہونے کے باعث اُنہیں بینکوں کے پاس گروی نہیں رکھوایا جا سکتا جس کی وجہ سے SMEsسیکٹر کو بینکوں سے قرضہ حاصل کرنا نہایت مشکل تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے FPCCIکی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اینڈ فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے اُس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ چھوٹے درجے کی صنعتوں SMEsکیلئے قرضوں کے علیحدہ نرم قوانین بنائے جائیں جس میں SMEsکو اثاثے گروی رکھ کر قرضے دینے کے بجائے کیش فلو کی بنیاد پر قرضے فراہم کئے جائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری کئی سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک نے SMEsکے قرضوں کے علیحدہ قوانین کا اعلان کیا جسکے تحت اب کوئی SMEکمپنی اپنی فزیبلٹی رپورٹ اور کیش فلو کی بنیاد پر اگر قرضے واپس کرنے کی استطاعت رکھتی ہے تو بینک اسے اثاثے گروی رکھوائے بغیر قرضہ دے سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں ایس ایم ایز سیکٹر زرعی شعبے کے علاوہ 80فیصد ملازمتیں فراہم کررہا ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 40فیصد ہے جبکہ دنیا میں ایس ایم ایز سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ اوسطاً 55فیصد ہے۔ مینو فیکچرنگ سیکٹر میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی گروتھ 8فیصد، ایکسپورٹس میں 10فیصد اور سروس سیکٹر میں 10فیصد سالانہ ہے جس کو ہمیں بڑھانا ہوگا۔ سمیڈا اور ایس ایم ایز بینک کو چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے فروغ کیلئے خواتین کی شالز، موٹر پمپس اور پنکھا سازی جیسے خصوصی کلسٹرز بنانا چاہئیں تاکہ نوجوان چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں قائم کرکے اپنے لئے خود روزگار کے مواقع پیدا کرسکیں۔

تازہ ترین